معاشرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ہر شخص پریشان حال دکھائی دیتا ہے گھروں میں نحوستوں نے ڈیرے ڈال کر چین و سکون کو برباد کررکھا ہ پریشانی،ڈپریشن تو تقریبا ہر ایک کی بیماری بن چکا ہے کاروبار میں تنگی ہوئی تو قرض کا سہارا لیناپڑا اور جب قرض لیا تو یہ الگ وبال جان بن گیا کہ اس کی ادائیگی اب کیسے ہوگی اب ادائیگی کا

جب بندو بست نہ ہوسکے تو سود اور رشوت سے کام چلا کر اپنی روحانیت کا خود اپنے ہاتھوں سے قلع قمع کردیتے ہیں اور جب روحانی سکون کے متلاشی کو سکون میسر نہ ہو تو پھر وہ آخری راہ کا چناؤ کرلیتا ہے یعنی خود کشی ۔خود کشی کا پھندہ یہ سوچ کر چوم لیاجاتا ہے کہ یہاں چین نہیں ملا کیا معلوم وہاں راحتیں میسر آجائیں خود کشی اسلام میں حرام ہے اور ظاہر ہے کہ حرام کردہ احکام کو جب بندہ بخوشی گلے لگائے گا تو کیا آرام اور سکون ملے گا؟بلکہ وہاں بھی بے سکونی اس کی منتظر ہو گی جب کہ اللہ نے قرآن میں واضح ارشاد فرمایا کہ الا بذکراللہ تطمئن القلوب کہ بے شک دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے یعنی انسان پوری دنیا میں سکون کی تلاش بھلے کر لے لیکن اسے نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا کہ دل کا سکون میری یاد میں ہی ہے اور اسی طرح اللہ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ شیطان نے اس پر غلبہ پایا اور اسے اللہ کی یاد سے غافل کردیا اللہ کے ذکر سے دل کو پھیر کر شیطان انسان کو گناہوں سے ایسا کھلاتا ہے جیسا کہ بچے گیند کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں لفظِ ذکر عربی زبان کا لفظ ہے اور ذکر دو طرح سے کیا جاتا ہے ایک لسانی جس میں باقاعدہ

زبان سے ادا کیا جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے اور ایک قلبی ذکر جو دل میں ہوتا ہے اور ساتھ بیٹھا شخص بھی اس کی ناآواز سن سکتا ہے یہ ذکر خفی کہلاتا ہے اور ذکر کی تو اتنی فضیلت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں آج تک جتنے اولیاء اللہ گزرے ان کا کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جو یاد خدا سے غافل ہو ہر گھڑی اللہ ہی اللہ کی صدائیں ہوتی تھیں یہاں تک کہ جب حضرت جنید بغدادی ؒ کا انتقال ہونے لگا تو کسی نے کہا حضرت کلمہ پڑھ لیجئے تو حضرت جنید بغدادی ؒ کہنے لگے میں کسی وقت بھی اس کو نہیں بھولا یعنی مجھے وہ وقت تو یاد دلا دو کہ اگر میں کسی گھڑی اور کسی پل بھی اللہ کو بھولا ہوں اللہ ُ اکبر اس تحریر میں اللہ ہی کے ایک نام کا ذکر اللہ الصمد کے کچھ ایسے کمالات اور مشاہدات کچھ عام اور کچھ خاص لوگوں کے لئے پیش کررہے ہیں جس کے ذکر سے آپ کی زندگی سے جڑے مختلف مسائل اور پریشانیاں نا صرف ختم ہوں گی بلکہ زندگی میں سکون کی لہر دوڑنا شروع ہوجائے گی اور ساتھ ساتھ یہ بھی تحریر کریں گے کہ ایک سفید کاغذ پر اللہ الصمد لکھ کر لٹکانے سے کیا فائدہ ملتا ہے ۔الصمد کا مطلب ہے بے نیاز اور لکھا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت سجدے میں سر رکھ کر ایک سو پندرہ یا ایک سو

پچیس مرتبہ الصمدُ کو پڑھے گا اس کو انشاء اللہ ظاہری اور باطنی سچائی نصیب ہوجائے گی اور جو شخص فجر اور عشاء کی نماز کے بعد ایک ہزار مرتبہ اللہ الصمد پڑھے گا اس کے تمام کام آسان اور مشکلیں اس کی رفع ہوجائیں گی اور اسی طرح جو بھی ہر نماز کے بعد سو مرتبہ الصمدُ پڑھنے کا معمول بنا لے تو اسے ہر غم اور فکر سے نجات مل جاتی ہے اسی طرح وہ عورت کہ جس کا شوہر بہت ظالم ہو بہت ستاتا ہو تووہ عورت دس مرتبہ بسم اللہ الصمد ِ پڑھ کر تصور میں اس کے ماتھے پر پھونک مارے اور کسی چیز پر دس بار پڑھ کر دم کر کے اسے کھلا دے تو وہ ظلم سے باز آجاتا ہے اسی طرح ایک ایسا عمل کہ جس سے کئی لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں اگر گھریلو معاملات میں کوئی پریشانی ہو میاں بیوی کا کوئی بھی مسئلہ ہو یوں سمجھ لیں کہ ازدواجی زندگی کا کوئی بھی بڑے سے بڑا مسئلہ ہو تو اس کا حل اس عمل میں موجود ہے اور صرف ازدواجی زندگی کا ہی نہیں بلکہ جو بھی جس مقصد کے لئے کرے گا اس مقصد میں اسے کامیابی ایسی ملتی ہے کہ انسان خود حیران رہ جاتا ہے لکھا تھا کہ جب یہ عمل کسی ایک شخص کو بتایا جارہا تھا تو وہ یہ عمل بڑے غور سے سن رہا تھا تواس شخص نے اسی دن یہ عمل کرنا شروع کر دیا اور چند دن بعد آکر کہنے لگا کہ مجھے سو فیصد کامیابی ملی ہے اور اب میں شادی کرنے جارہا ہوں اور اس کے بعد اس کے کئی بھائیوں نے یہ عمل آزمایا اور اب وہ خوشگوار گھریلو زندگی گزار رہے ہیں وہ عمل یہ ہے کہ ایک سفید کاغذ پر خوشخط میں اللہ الصمد لکھ کر کمرے کی دیوار پر لٹکا دیں جہاں آپ کی نظر پڑتی رہے اور دن میں جب بھی فارغ ہوں اس اسم پر آپ نے نظر جما لینی ہے اور اپنے مقصد کا تصور رکھنا ہے روزانہ ایک بار یا دوبار دس پندرہ منٹ مشق کرلیا کریں دس دن کے اندر لکھا ہے کہ آپ کی وہ مراد پوری ہو جائے گی ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں