نماز کو مومن کی معراج کہاجاتا ہے اور یہ کہاجاتا ہے کہ نماز میں بندہ اپنے رب کے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے یادرہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کا وہ حکم ہے جس میں اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے تو نماز مکمل نہیں ہوتی لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسے ہم کلام ہوسکتے ہیں یا پھر ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ

کیا کلام کرسکتے ہیں ہر گز نہیں کیونکہ ہم تو بس نماز کا یاد کیا ہوا سبق پڑھتے ہیں نماز مکمل کرتے ہیں اور بس حالانکہ نماز میں اللہ کی ذات پوری طرح ہماری جانب متوجہ ہوتی ہے اور نہ صرف متوجہ ہوتی ہے بلکہ ہمارے کلام کا جواب بھی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کلام کا جواب کیسے دیتا ہے اور نماز میں اس سورت کو پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہوتا ہے؟یادرہے کہ سورہ فاتحہ کا نام الفاتحہ اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے فاتحہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کاافتتاح ہو یہ نام دیباچہ اور آغاز کلام کا ہم معنی ہے اسے ام الکتاب اور ام القرآن بھی کہاجاتا ہے اس سورت کے متعدد نام ہیں فاتحہ ،فاتحۃ الکتاب ،سورہالکنز،کافیہ،وافیہ،شافعہ،شفاء،سبعا من المثانی،نوررقیہ،الحمد،الدعا،تعلیم المسئلہ،سورۃ المناجہ ،سورہ التفویض،سورۃ السوال،فاتحۃ القرآن،سورۃ الصلوٰہ حدیث شریف میں اس سورت کو نور کہاگیا ہے امام نسائی ؒ روایت کرتے ہیں۔ کہ حضرت ابن عباس ؓ بیانکرتےہیں کہ ایک دن جبرائیل ؑ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے اوپر کی جانب سے ایک چرچراہٹ کی آواز سنی حضرت جبرائیلؑ نے کہکہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے

جو آج کھولا گیا ہے اور آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا حضرت جبرائیل ؑ نے کہا کہ یہ فرشتہ جو زمین کی طرف نازل ہوا ہے یہ آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا تھا اس فرشتے نے آکر سلام کیا اور کہا کہ آپ کو دونوں نوروں کی بشارت ہو جو آپ کو دیئے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے ایک نور فاتحۃ الکتاب اور دوسرا سورۃ البقرۃ کی آخری آیتیں ان میں سے جس حرف کو بھی آپ پڑھیں گے وہ آپ کو دے دیاجائے گا اس لئے بعض اکابرین کا یہ ماننا ہے کہ یہ سورہ اسم اعظم بھی ہے کیونکہ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے۔ کہ اس سورۃ کے وسیلے سے اللہ سے جو مانگا جائے گا وہ ملے گا اس سورۃ کے فضائل بہت زیادہ فضائل ہیں۔روایات میں آتا ہے کہ جب بندہ نماز کے اندر سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو اللہ ہر آیت کا جواب عرض کرتا ہے اس کے بارے میں یہ حدیث ہے کہ امام مسلم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے اور میرے بندے کے درمیان صلوٰۃ سورۃ الفاتحہ کو آدھا آدھا تقسیم کردیا گیا ہے اور میرے بندے کے لئے وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کرے

اور جب بندہ کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی اور جب وہ کہتا ہے الرحمن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی اور جب وہ کہتا ہے۔ مالک یوم الدین تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری تعظیم کی ایک اور روایت میں میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کردیا اور جب وہ کہتا ہے کہ ایا ک نعبد وایاک نستعین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جس کا وہ سوال کرے اور جب وہ کہتا ہے اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم وللضالین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کرے بروایت صحیح مسلم۔خود ہی اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالیٰ کس انداز سے اپنے بندے کے کلام کو سنتا ہے اور نہ صرف سنتا ہے بلکہ جواب بھی دیتا ہے لیکن کیاکبھی بندے نے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ اس کا رب اس کا کلام سن رہا ہے اور خوش ہورہا ہے اور خوشی سے اپنے بندے کے ہر ہر جملے کا جواب بھی عرض کررہا ہے اس

سوال کا جواب نہ ہی کی صورت میں سامنے آتا ہے کیونکہ کبھی ہم نے اس نماز کے سبق کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم جو پڑھ رہے ہیں اس کا معنی کیا ہے جب ہمیں معنی کا ہی نہیں پتہ ہوگا تو ہمارا نماز میں دھیان کیسے جمے گا اس لئے ضروری ہے کہ اس سورت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ایک ایک آیت میں ہم کیا پڑھ رہے ہیں جب اس کا ہمیں علم ہوگا تو ہی ہمارا نماز کے اندر دھیان جمے گا جب ہمیں یہ علم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کلام کو سن کر ہمارے کلام کا جواب دیتا ہے ۔ہمیں چاہئے کہ ہم اس حدیث پاک کو یاد کریں۔ قرآن پاک کی تفسیر کو پڑھیں اور اپنی نمازکو بنانے کی کوشش کریں صرف یہ نہ ہو کہ نماز تو ادا کر لی لیکن نماز میں کیا کیا کیا ہوا اس کا پتہ ہی نہیں ایسی ہی نمازوں کے لئے اقبال نے کہا ہے سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں :دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر ۔ یاد رہے کہ ہماری نماز میں جان تبھی پیداہوگی جب ہم نماز کے اندر پڑھے جانے والے سبق کے معنی اور مفہوم سمجھیں گے ۔سور ہ فاتحہ ایسی فضیلت والی سورت ہے کہ جس کی برکات نماز کے اندر بھی ہیں اور نماز کے علاوہ بھی ہیں نماز تو اس

سورت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتی البتہ ہمیں چاہئے کہ نماز کے علاوہ بھی اس سورۃ کی کثرت سے تلاوت کریں اور اس کی برکات سے استفادہ کریں سورۃ فاتحہ کی فضیلت کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جس دن فاتحۃ الکتاب سورۃ فاتحہ نازل ہوئی اس دن ابلیس بہت رویا تھا ۔یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ابلیس کو اللہ نے بڑے علم عطا کئے تھے لیکن اس نے تکبر کیا اور جس کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کا شکارہوا اور یوں ملعون ہوگیا۔ اور اس پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور اس نے اللہ کو چیلنج کیا کہ اس کے بندوں کو ورغلائے گا اب جبکہ اللہ نے اپنے بندوں کو سورہ فاتحہ کی صورت میں برکات عطا کیں تو شیطان کو سخت تکلیف ہوئی کہ اس کی محنت جو وہ بندوں کو گمراہ کرنے میں کرتا ہے وہ تو اس سورت کی برکت سے رائیگاں ہوجائے گی اسی وجہ سے جب یہ سورت نازل ہوئی تو شیطان سرپکڑ کر بیٹھ گیا بلکہ دھاڑیں مارنے لگا کہ وہ اب محمد مصطفی احمد مجتبیﷺ کی امت کو کیسے بھٹکائے گا اسی لئے چاہئے کہ سورت فاتحہ کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کر کے شیطان کو کمزور کیاجائے اور اس کی تکلیف میں اضافہ کیاجائے سورہ فاتحہ کو سورہ شفا بھی کہاجاتا ہے اس لئے اس سورت کو اپنے بیماروں پر پڑھ کر دم کیاجائے تو اللہ کےفضل سے شفاء حاصل ہوتی ہے بلکہ جس بھی مقصد کے لئے اس سورت کو پڑھیں گے انشاء اللہ وہ مقصد حاصل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں