جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان سے انخلا تقریبا مکمل ہو چکا ہے۔پاکستان نے اس امن معائدہ میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔شاید یہ معائدہ پاکستان کے بغیر کبھی بھی طے نہ پاتا۔پاکستان کی ان تھک کوششوں سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا۔جس کے بعد ایک امن معائدہ طے پایا جس کے تحت امریکی افواج اور ان کے اتحادی افغانستان سے انخلا کرنے پر راضی ہوئے۔افغان حکومت یعنی کہ صدر اشرف غنی یہ کھبی نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ افغانستان سے چلا جائے کیونکہ امریکہ کی وجہ سے ہی اشرف غنی کی حکومت قائم ہے اس وجہ سے ان کو خطرات لاحق تھے جو بجا تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ امریکہ کے بغیر ان کی حکومت قائم رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے اس لیے انہوں ایٹری چوٹی کا زور لگایا مگر سپر پاور امریکہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔انہوں نے طالبان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کر کے امن معائدہ کر لیا جس کے تحت تمام غیر ملکی فوجوں کو افغانستان سے نکل جانا تھا۔

جیسے جیسے امریکہ کی افواج کا انخلا مکمل ہو رہا ہے افغانستان کی صورتحال بھی بدل رہی ہے۔طالبان کا دعوی کا انہوں نے افغانستان کے 85 ٪ علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔85٪ علاقے پر قبضے کا دعوی شاید درست نہ ہو مگر طالبان نے افغانستان کے کافی سارے اہم صوبوں اور بارڈر پر قبضہ کر لیا ہے ۔افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کچھ دن پہلےانٹرویو میں بتا یا کہ کہ پاکستانی سرحد سے متصل افغان ضلع اسپن بولدک پر قبضے کے لیے حملہ کیا گیا جس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین مرکزی گزرگاہ کاکنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ترجمان طالبان کا کہنا ہے کہ طالبان نے 20 سال بعد افغانستان کی جانب سے باب دوستی کاکنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔طالبان نے باب دوستی سے افغانستان کا قومی پرچم اتار کر اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے۔دوسری طرف افغان حکومت نے حملے کی تصدیو کی لیکن انہوں نے طالبان کے دعویٰ کو مسترد کر دیا اور بتا یا کہ طالبان کے حملہ کو پسپا کر دیا گیا ہے۔

کچھ دن پہلے افغان صدر اشرف غنی نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم واقعی افغانستان سے پیار کرتے ہو تو تم پاکستان کے ساتھ باڑ کو تسلیم نہیں کرو گے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر تم امریکی اور غیر ملکی افواج سے جنگ کر رہے تھے تو اب تو وہ چلے گئے اب کس سے اور کیوں جنگ کر رہے ہو۔اشرف غنی نے بھارت سے اسلحے کی امداد کی اپیل بھی کی۔اور کچھ دن پہلے بھارت نے کئی ہزار ٹن اسلحہ بارود افغان حکومت کے حوالے کیا۔صدر اشرف غنی نے ٌپاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان نے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخؒ کیے جو طالبان کی مدد کر کرہے ہیں۔اشرف غنی کا جھکاو ہمشہ سے پاکستان مخالف قوتوں کی طرف رہا ہے۔

باڈر کے اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو تصویر کا کچھ اور ہی رخ ہے۔جب امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو افغانستان سے آئے لاکھوں مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی یہی نہیں بلکہ ان کو روزگار بھی مہیا کیے ۔ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے انتظامات کیے گئے۔پاکستان کی حکومت اور افواج سے جو ہو سکا انہوں نے افغان مہاجرین کے لیے کیا۔طالبان اور امریکی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا ۔پاکستان نے سپرپاور امریکہ کے دباو میں آ کر اس جنگ میں حصہ لیا اور شاید یہی سب سے بڑی غلطی تھی۔مگر اس وقت حالت ایسے تھے پاکستان امریکہ کو انکار نہ کر سکا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بھر میں دہشت گردی کا ناسور اس طرح پھیلا کہ چند ہی سالوں میں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔سانحہ پشاور کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں ۔یہ اس کی ایک زندہ مثال ہے۔یہ حملہ بھی افغان سر زمین پر پلان کیا گیا تھا۔پاکستان نے ستر ہزار شہریوں کی قربانی دی اور پاکستان کو 150 ارب ڈالر کا معاشہ نقصان اٹھانا پڑا۔

اب اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے حالات بالکل بدل چکے ہیں۔پاکستان نے امریکہ کو اڈے دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔پاکستان نے افغان طالبان کو کہا کہ اگر آپ طاقت کے ساتھ ہیں ملک پر قبضہ کریں گے تو ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔پاکستان نے افغانستان پر اور افغان طالبان پر یہ واضح کر دیا کہ اگر اب خانہ جنگی شروع ہوئی تو پاکستان اپنی سرحد سیل کر دے گا۔کیونکہ پاکستان اب مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔لیکن دوسری طرف بھارت کی دوست اٖفغان حکومت مسلسل پاکستان پر الزام لگانے میں مصروف ہے۔حکومت پاکستان یہ بات واضح کر چکی ہے کہ ہم پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

رہی بات اب افغانستان کی تو حالات یہی بتا رہے ہیں کہ طالبان جلد ملک پر قبضہ کر لیں گے۔شاید افغان صدر اشرف غنی کو اسی بات کا ڈر ہے کہ ان کی حکومت کا خاتمہ جلد ہی ہو جائے گا اس لیے وہ آئے روز بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیان دے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں