اللہ نے قرآن میں رمضان کی لیے چار احکام خصوصیت سے بیا ن کریں ۔ ایک پر اشارہ دیا ہے لیکن حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ تو چار کام میں سب سے پہلا کام کیا ہے ؟ روزہ ۔ اس میں آپشن ہے ہی نہیں ۔ وہ تو رکھنا ہے ہی رکھناہے۔ دوسرا کام اللہ نے رمضان میں جس کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ وہ ہے تلاوت ِ قرآن مجید۔ رمضان اور قرآن مجید کا آپس کا بہت گہرا جوڑ ہے۔
فرمایا ہے وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ اللہ نے رمضان کا انتخاب قرآن کے نزول کے لیے۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے اس مہینے میں تراویح دی۔ تاکہ اس میں قرآن پڑھا جائے ۔ بعض کہتے ہیں کہ تراویح کا نبی کی طرف سے کوئی ثبو ت نہیں ملتا ہے یہ جھ وٹ ہے ۔ یہ سو فیصد غلط بات ہے۔ تراویح سب سے پہلے کس نے پڑھی ہے حضرت محمد ﷺ نے ۔ تین دن پڑھ کر چھوڑ اس لیے دی کہ کہیں فرض نہ ہوجائے۔
پھر صحابہ نے ابوبکر کے دور میں تراویح شرو ع کردی۔ حضرت عمر کے دور میں نہیں شروع ہوئی ۔ صحابہ پھرپڑھتے رہے ہیں۔ نبی کے انتقال کے بعد پڑھتے رہے ہیں۔ کیونکہ اب فرضیت کا امکان ختم ہوگیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کیا ہے جو مختلف ٹولیوں میں پڑھ رہے تھے ۔ انہیں ایک جگہ پر جمع کیا ہے۔ کیونکہ جو نبی نے کام کیا ہے آپ اکیلے امام تھے اور باقی سب لو گ مقتدی تھے۔ تو حضرت عمر نے ان کو نبی کے نہج پر اس تراویح کو کرا یا ہے۔ دو کام بتادیے ہیں۔ تیسرا کام کیا ہے ۔ جس کا حدیث میں ذکر ملتا ہے ۔ اور قرآن نے اشارہ بھی دیا ہے اس کی طرف۔ وہ کیا ہے ؟
صدقات وخیرات کی کثرت۔ روزہ رکھنا آسان ہے۔ مال خرچ کرنا مشکل ہے۔ آج کل لو گ منتیں جو مانگتے ہیں میرا کام ہوگیا تو یہ کروں گا۔ نماز اور روزے کی منتیں مانی جاتی ہیں۔ مگر پیسے خرچ کرنے کی منتیں نہیں مانی جاتی۔ پیسے خرچ کرنے کی منتیں نہیں مانگتے ۔ پیسوں سے ہمیں بہت محبت ہے۔ اللہ نے جہاں نماز کا ذکر وہاں مال خرچ کرنے کاذکر ساتھ ساتھ کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کو کنجوس نمازی پسند نہیں ہیں۔ تو ہم اس نوٹ سے دل نہ لگائیں۔ اس پراپرٹی سے دل نہ لگائیں۔ دل رکھیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ بھی کریں۔