حضرت علی کرم اللہ وجہہ جنگِ صفین میں مشغول تھے تو ان کے ساتھیوں کو پانی سخت ضرورت پڑی لیکن پانی نہ ملا۔ حضرت علی ؓ نے زمین کھو دی اور ایک جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ جنگ صفین میں مشغول تھے تو آپ کے ساتھیوں کو پانی کی سخت ضرورت پڑی، لوگوں نے بڑی دوڑ بھاگ کی، مگر پانی دستیاب نہ ہوا …آپ نے فرمایا :” اور آگے چلو … “کچھ دور چلے، تو ایک گرجا نظر آیا۔ آپ نے اس گرجا میں رہنے والے سے پانی کے متعلق دریافت کیا، تو انھوں نے کہا کہ :” یہاں سے چھ میل کے فاصلے پر پانی موجود ہے … “آپ کے ساتھیوں نے کہا اے امیرالمومنین آپ اجازت دیجیئے، شاید ہم اپنی قوت کے ختم ہونے سے پہلے پانی تک پہنچ جائیں۔

آپ نے فرمایا : اس کی حاجت نہیں پھر اپنی سواری کو مغرب کی طرف موڑا اور ایک طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا :” یہاں سے زمین کھودو … “ابھی تھوڑی زمین ہی کھودی گئی تھی کہ نیچے ایک بڑا پتھر ظاہر ہوا جسے ہٹانے کے لیے کوئی ہتھیار بھی کارگر نہ ہو سکا، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :” یہ پتھر پانی پر واقع ہے کسی طرح اسے ہٹاؤ … “آپ کے ساتھیوں نے بہت کوشش کی مگر اسے اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے …اب اسد اللہ نے اپنی آستین چڑھا کر انگلیاں اس پتھر کے نیچے رکھ کر زور لگایا تو پتھر ہٹ گیا اور اس کے نیچے نہایت ٹھنڈا میٹھا اور صاف پانی ظاہر ہوا جو اتنا اچھا تھا کہ پورے سفر میں انہوں نے ایسا پانی نہ پیا تھا، سب نے شکم سیر ہو کر پیا اور جتنا چاہا بھر لیا۔

پھر آپ نے اس پتھر کو اٹھا کر چشمہ پر رکھ دیا اور فرمایا کہ :” اس پر مٹی ڈال دو … “جب راہب نے یہ دیکھا تو آپ کی خدمت میں کھڑے ہو کر نہایت ادب سے پوچھا کہ :” کیا آپ پیغمبر ہیں …؟ “آپ نے فرمایا :” نہیں … “پوچھا :” کیا آپ فرشتہ مقرب ہیں ؟ “فرمایا :” نہیں … “پوچھا :” تو آپ کون ہیں …؟ “آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :” حضرت سیدنا حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم کا داماد اور خلیفہ ہوں … “راہب نے کہا :” ہاتھ بڑهائیے تا کہ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں .”آپ نے ہاتھ بڑھایا تو راہب نے کہا ۔

اشهد ان لا اله الا للہ واشهدان محمد رسول اللہ “آپ نے راہب سے دریافت فرمایا کہ :” کیا وجہ ہے کہ تم اتنی مدت سے اپنے دین پر قائم تھے اور آج تم نے اسلام قبول کر لیا …؟ “اس نے کہا :” یہ گرجا اسی ہاتھ پر فتح ہونا تھا، جو اس چٹان کو ہٹا کر چشمہ نکالے، اور ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اس چٹان کا ہٹانے والا یا تو پیغمبر ہو گا یا پیغمبر کا داماد۔ جب میں نے دیکھا کہ آپ نے اس پتھر کو ہٹا دیا تو میری مراد پوری ہو گئی اور مجھے جس چیز کا انتظار تھا وه مل گئی … “جب راہب سے آپ نے یہ بات سنی تو اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی کے بال تر ہو گئے اور پھر فرمایا :” سب تعریف خدائے بزرگ کے لیے ہیں کہ میں اس کے یہاں بھولا بسرا نہیں ہوں بلکہ میرا ذکر اس کی کتابوں میں موجود ہے .۔

اپنا تبصرہ بھیجیں