رزق اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جاندار ہوں یا ہوا میں اڑنے والے پرندے ہوں چاہے سمندر کی تاریکیوں میں بسنے والے جاندار ہوں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والے جاندار ہوں اللہ تعالیٰ سے کوئی اوجھل نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کسی کو بھولتا ہے جیسا کہ سورہ ہود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اس زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو اس آیت سے معلوم ہوتا ہے-

کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر لطف و کرم فرمانے والا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے چنانچہ اگر کبھی کسی کو روزی کم ملے یا سرے سے ہی نہ ملے تو اسے اس آیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ رزق کم ملنے یا بالکل نہ ملنے میں ضرور اس کا کوئی نہ کوئی لطف و کرم یا اس کی حکمت پوشیدہ ہے اور بندے کے رزق میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ بھی اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے جیسے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ بے شک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دیتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا اور ان کے احوال کو دیکھتا ہے مگر یہاں یہ بات یاد رہے کہ رزق میں کمی نہ تو اللہ کی ناراضگی کی دلیل ہے اور نہ تو رزق میں زیادتی اللہ کی رضا کی دلیل ہے بلکہ یہ سب امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گنہگار کے رزق میں-

وسعت ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیک و فرمانبردار بندوں کے رزق میں تنگی ہو تی ہے ان قرآنی آیات کی روشنی میں یہ حقیقت جان لینے کے بعد کہ رزق میں خوشحالی اور تنگی لانے کا تنہا مالک صرف اور صرف اللہ ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ ایک شخص حضرت غوث علی شاہ قلندرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کشائش رزق کیلئے وظیفہ پوچھا آپ نے فرمایا میاں اگر درود و وظائف پر روزی کا انحصار ہوتا تو دنیا میں مولویوں سے بڑھ کر کوئی دولت مند نہیں ہوتا ۔ سچ پوچھو تو وظیفہ اس معاملہ میں الٹا اثر کرتا ہے ۔ کیونکہ دنیا ایک میل کچیل ہے اور اللہ کا نام صابن ۔ بھلا صابن سے میل میں اضافہ کیونکر ہو سکتا ہے ۔ خدا کا نام تو صرف اس لئے ہے کہ اس کی برکت سے دنیا کی محبت دل سے دور ہوجائے نہ اس لئے کہ آدمی دنیا میں زیادہ آلودہ ہو ۔ یہ باتیں سن کر اس شخص نے پھر اصرار کیا تو فرمایا خیریاباسطاً بسط فی رزقی پڑھا کرو لیکن مسجد سے باہر خدا کے گھر میں دنیا طلبی کا کیا کام؟ حضرت خواجہ محمد عبدالرحمن چوہردیؒ کے پیر-

مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ سے محبانہ تعلقات تھے ۔ایک دفعہ حضرت گولڑوی نے خواجہ صاحب کے فقر اور افلاس کو دیکھ کر فرمایا کہ آپ فلاں وظیفہ پڑھا کریں تو آپ کا لنگر خوب چل جائے گاور آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو گی ۔ خواجہ صاحبؒ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا ۔ جب حضرت گولڑویؒ نے دو تین مرتبہ اصرار کیا تو انہوں نے فرمایا ۔ حضرت مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ باہر سے لوگ مجھے پیر سمجھ کر آئیں اور اندر پیر پیسوں کا وظیفہ پڑھتا ہو ۔ حضرت پیر صاحب گولڑہ شریف نے فرمایا مرحبا جیسا آپ کو سنا تھا ویسا ہی پایا ۔ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت مخدوم جہانیاںؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں حج پر جانا چاہتا ہوں لیکن استطاعت نہیں ہے آپ بادشاہ کو لکھیں کہ وہ سرکاری خزانہ سے مجھے زادِ راہ عنایت فرمائے ۔ آپ نے یہ سن کر محرروں سے فرمایا کہ بادشاہ کو لکھ دو کہ اس شخص کو زادِ راہ عنایت کیا جائے لیکن میں نے فقہ میں دیکھا ہے کہ جو شخص بادشاہوں سے خرچ لے کر حج کو جاتا ہے اس کا حج قبول نہیں ہوتا ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں