حضرت عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں کہ جب اللہ عزوجل نے حضرت زید بن سعنہ ؓ کو ہدایت سے نوازنے کا ارادہ فرمایا، تو حضرت زید بن سعنہ ؓ نے اپنے د ل میں کہا کہ حضورﷺکے چہرے پر نگ۔اہ پ۔ڑتے ہی میں نے نبوت کی تمام نشانی۔وں کو حضورﷺ کے چہرے پر پالیا تھا۔ لیکن دو نشانی۔اں ایسی ہیں جن کو میں نے حضورﷺ میں ابھی تک آزمایا نہیں ہے ۔
ایک تو نبی کی بردباری انکے جلد غص۔ہ میں آجانے پر غالب ہوتی ہے۔ دوسری یہ کہ نبیﷺ کیساتھ جتنا زیادہ نادانی کا معاملہ کیا جائیگا ۔ان کی بردباری اتنی ہی بڑھتی جائیگی ۔چنانچہ ایک دن آپﷺ حجرے سے باہر تشریف لائے آپ کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب ؓ بھی تھے آپﷺ کے پاس ایک آدمی اونٹنی پر سوار ہوکر آیا جو بظاہر بدو معلوم ہوتا تھا۔ اس نے کہا یا رسول اللہﷺ فلاں قبیلہ کی بستی میں میرے ساتھ مسلمان ہوچکے ہیں۔میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں گے تو ان پر رزق کی بڑی وسعت ہوجائیگی ۔لیکن اب وہاں قحط سالی آگئی ہے ۔اور بارش بالکل نہیں ہورہی ہے ۔ یار سول اللہ مجھے اس بات کا خط۔رہ ہے کہ جیسے وہ ل۔الچ میں آکر اسلام میں داخل ہوئے اسی طرح لالچ میں آکر کہیں وہ اسلام سے نکل نہ جائیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو انکی مدد کیلئے ک۔چھ بھی۔ج دیں۔
آپﷺ کے پہلو میں جو آدمی تھا۔ آپﷺ نے انکی طرف دیکھا وہ حضرت علی ؓ تھے۔ تو اس آدمی نے کہا یا رسول اللہﷺ اس مال سے تو کچھ نہیں بچا۔ حضرت زید بن سعنہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کے قریب جاکر کہا اے محمدﷺ اگر آپ چاہیں تو میں پیسے آپ کو ابھی دے دیتا ہوں اور اسکے بدلے میں آپ فلاں قبیلہ کےباغ کی اتنی کھجوریں مجھے فلاں وقت دے دیں۔ آپﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن کسی کے باغ کو مقرر مت کرو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ آپﷺ نے مجھ سے یہ سودا کرلیا میں نے اپنی کمر سے ہمیانی کھولی اور ان کھجوروں کے بدلے میں آپﷺ کو اسی مث۔ق۔ال سونا دے دیا ۔ آپﷺ نے وہ سارا سونا اس آدمی کو دے دیا اور اس سے فرمایا یہ لو انکی امداد کیلئے لے جاؤ اور ا ن میں برابر تقسیم کردینا۔ حضرت زید بن سعنہ ؓ فرماتے ہیں کہ مقرر میعاد میں ابھی دو تین دن باقی تھے۔
کہ حضورﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کیساتھ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ اور چند صحابہ بھی تھے ۔جب آپﷺ نماز جن۔ازہ پڑھا چکے اور دیوار کے قریب بیٹھنے کیلئے تشریف لے گئے تو میں نے آگے بڑھ کر آپﷺ کیطرف غصے والے چہرے سے دیکھا اور میں نے آپﷺ سے کہا کہ اے محمدﷺ آپ میرا حق کیوں ادا نہیں کرتے ہیں ؟ اللہ کی قسم تم اولاد عبدالمطلب نے تو منع کرنا ہی سیکھا ہے۔ اور اب ساتھ رہ کر بھی یہی نظر آیا ہے اتنے میں میری نظر حضرت عمر ؓ پر پڑی تو ۔انکی دونوں آنکھیں گول آسمان کی طرح گھوم رہی تھیں۔ انہوں نے مجھے گ۔ھور کر دیکھا اور کہا اے اللہ کے دشم۔ن تو اللہ کے رسولﷺ کو وہ باتیں کہہ رہا ہے ۔جو میں سن رہا ہوں او ر انکے ساتھ وہ سلوک کررہا ہے ۔جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ اگر آپ کی مج۔لس کے ادب کا لحاظ نہ ہوتا تو ابھی اپنی تل۔وار سے تی۔ری گ۔ردن اڑا دیتا اور حضورﷺ مجھے بڑے سکون اور اطمینان سے دیکھ رہے تھے ۔
آپﷺ نے فرمایا اے عمر ؓ مجھے تم سے کسی اور چیز کی ضرورت تھی۔ مجھے تم اچھی طرح اور جلد ی ادا کرنے کو کہتے اور اسے ذرا سلیقے سے مطالبہ کرنے کو کہتے ۔ اے عمر ؓ انہیں لے جاؤ اور جتنا ان کا حق بنتا ہے۔ وہ بھی ان کو دو اور جو تم نے ان کو دھمک۔ایا ہے۔ اس کے بدلے میں انکو بیس صاع کھجور اور دو ۔ حضرت زید ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ مجھے لے گئے اور جتنی میری کھجوریں تھیں ۔وہ بھی مجھے دیں اور بیس صاع کھجوریں مزید بھی دیں میں نے کہا یہ زیادہ کھجوریں کیوں دے رہے ہو ۔حضرت عمر ؓ نے کہا کہ مجھے حضورﷺنے فرمایا تھا کہ میں جو تم کو دھمک۔ایا ہے اس کے بدلے میں تم کو مزید کھجوریں بھی دوں ۔ میں نے کہا اے عمر ؓ کیا تم مجھ کو جانتے ہو حضرت عمر ؓ نے کہا نہیں میں نے کہا میں زید بن سعنہ ؓ ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا وہ یہودیوں کے بڑے عالم میں نے کہا ہاں وہی ۔
حضرت عمر ؓ نے کہا اتنے بڑے عالم ہوکر تم نے اللہ کے رسول ﷺ کیساتھ ایسا سلوک کیوں کیا اور انکو ایسی باتیں کیوں کہیں میں نے کہا اے عمر ؓ حضورﷺ کے چہرے پر نگا۔ہ پ۔ڑتے ہی میں نے نبوت کی تمام نشانی۔وں کو حضورﷺ کے چہرے میں پالی۔ا تھا ۔لیکن دونشانیاں ایسی تھیں جن کو میں نے آپﷺ میں ابھی تک آزمایا نہیں تھا ۔ایک یہ کہ نبیﷺ کی بردباری ان کے جلد غص۔ے میں آجانے پر غالب ہوتی ہے ۔ دوسری یہ کہ نبیﷺ کے ساتھ جتنا نادانی کا معاملہ کیا جائیگا ۔انکی بردباری اتنی بڑھ۔تی جائیگی اور اب میں نے ان دونوں باتوں کو بھی آزما لیا ہے ۔
اے عمر ؓ میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اورمحمدﷺ کے نبی ہونے پر دل سے راضی ہوں اور اس بات پر گ۔واہ بناتا ہوں کہ میرا آدھا مال محمدﷺ کی ساری امت کیلئے وقف ہے اور میں مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا ساری امت کے بجائے بعض امت کہو کیونکہ تم ساری امت کو دینے کی گ۔نجائش نہیں رکھتے ہو ۔میں نے کہا اچھا بعض امت کیلئے وقف ہے۔ وہاں سے حضرت عمر ؓ اور حضرت زید ؓ حضورﷺ کی خدمت میں واپس آگئے۔ اور حضرت زید ؓ نے پہنچتے ۔ہی کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ اورحضورﷺ پر ایمان لے آئے اور آپکی تصدیق کی اور آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضورﷺ کیساتھ بہت سے غ۔زوات میں شریک رہے۔