خلیفہ ثانی سیدنا عمرابن خطاب ؓ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے سیدنا عمر ابن خطاب ؓ سے شکایت کی کہ اے امیر المومنین گورنر مصر حضرت عمر وبن العاص ؓ کے بیٹے محمد بن عمرو ؓ نے میری پشت پر آٹھ ک۔وڑے م۔ارے ہیں اور کہتا ہے کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں خلیفہ دوئم نے حکم فرمایا کہ محمد بن عمرو کو گ۔رفتار کرکے لایا جائے اور عمرو بن العاص ؓ کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ۔
جب محمد بن عمرو ؓ کو گ۔رفتار کرکے لایا گیا تو حضرت عمر ؓ نے اس آدمی سے کہا کہ گورنر کے بیٹے محمد بن عمرو ؓ کی پشت پر آٹھ ک۔وڑے م۔ارو۔ اس متاثرہ شخص نے گورنر کے بیٹے کی پشت پر ک۔وڑے م۔ارے تو حضرت عمر ؓ بن خطاب نے اس آدمی سے کہا کہ اب عمرو بن العاص ؓ کی پشت پر بھی ایک ک۔وڑا م۔ارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے اس پر اس آدمی نے کہا کہ اے امیر المومنین عمرو بن العاص ؓ نے تومجھے کوئی ک۔وڑا نہیں م۔ارا لہذا میں انہیں معاف کرتا ہوں۔اس کے بعد خلیفہ دوئم عوام کے جم غفیر کے سامنے گورنر مصر حضر ت عمرو بن العاص ؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا اے عمرو بن العاص ؓ تمہیں کیا ہوگیا
لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے ۔حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا ۔ ایک جرمنی کی پارسی لڑکی اس واقعہ کیوجہ سے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے سیرت سیدنا عمر ؓ پر 7000 انگریزی کی کتب جمع کیں اور ایک انٹرنیشنل لائبریری بنائی اور اس نے ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا جس میں 1000دنیا کے بڑے دانشوروں نے شرکت کی اس نے مقالہ پیش کیا جس میں یہ اعتراف کیا گیا کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار سیدنا عمر بن خطاب ؓ ہے کیونکہ حضرت عمر ؓ نے انسانوں کو تمام بنیادی حقوق دیے اور آپ ؓ کے ان الفاظ اے عمرو بن العاص ؓ تمہیں کیا ہوگیا لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔