حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور کی طرف جانے لگے تو راستے میں ایک شخص ملا جو کہ اپنے وقت کا رئیس اور صاحب ثروت آدمی تھا، وہ موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا، “اے موسیٰ علیہ السلام! جب آپ کوہِ طور پر اللہ سے ہمکلام ہونگے تو اُسے کہنا کہ اب بس کر دے میرے پاس اُسکی دی ہوئی ہر نعمت موجود ہے، اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اب وہ اپنی نعمتیں مجھے دینا بند کرے دے۔۔۔!” موسیٰ علیہ السلام نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گئے۔کچھ دور گئے تو کیا دیکھا ایک نیم برہنہ، متروک الحال شخص بیٹھا ہوا تھا جس نے اپنی شرمگاہ کو ریت سے چھپایا ہوا تھا، وہ موسیٰ علیہ السلام سے گویا ہوا، “اے موسیٰ علیہ السلام! اللہ سے کہنا میری طرف بھی کوئی نظرِ رحمت کرے، دیکھو میں کس حال میں بیٹھا ہوا ہوں، نہ تن پر کپڑا ہے اور نہ جسم میں کوئی نوالا، زیرِ آسمان رہتا ہوں اور سکون نام کی کوئی چیز میری زندگی میں نہیں ہے

۔۔۔!” آپؑ نے اُسکی بات بھی سنی اور کوہِ طور کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔!وہاں آپ علیہ السلام ، اللہ سے ہمکلام ہوئے تو اللہ نے کہا، “اے موسیٰ! وہ جو رئیس شخص تمہیں ملا تھا، اُسے کہنا، میرا شکر ادا کرنا چھوڑ دے، تو میں بھی اپنی نعمتوں کے در اُس پر بند کر دوں گا۔ اور وہ جو متروک الحال شخص ملا تھا، اُسے کہنا، میرا شکرا ادا کرنا شروع کر دے تو اُسکی زندگی بھی میری نعمتوں سے پُرسکون ہو جائے گی۔۔۔!”موسیٰ علیہ السلام، کوِ طور سے واپس آئے اور پہلے شخص کو اللہ تعالیٰ کا پیغام دیا کہ، “تم اللہ کا شکر ادا کرنا چھوڑ دو، اللہ بھی تمہیں نعمتیں دینا بند کر دے گا” تو وہ شخص چونک کر بولا، “اے موسیٰ علیہ السلام! میں بھلا اللہ کا شکر ادا کرنا کیسے چھوڑ سکتا ہوں،

جبکہ میری ایک ایک سانس بھی اُسکی عطا کردہ نعمت ہے۔بعد ازاں آپ علیہ دوسرے متروک الحال شخص کے پاس گئے اور اُسے بھی اللہ کا پیغام دیا کہ، “تم اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کر دو تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا” وہ حیران ہوتے ہوئے بولا، “اے موسیٰ ؑ! میرے پاس کچھ ہوگا تو میں شکر ادا کروں گا، آپؑ ہی بتاؤ ریت سے میں نے اپنا جسم ڈھانپا ہوا ہے، صبح سے ایک اناج کا دانہ تک میں نے کھایا نہیں ہے، تو اِس میں میں بھلا کس چیز کا شکر ادا کروں؟” اتنے میں تیز ہوا چلی، ریت اُڑی اور اُسکا پورا جسم برہنہ ہوگیا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں