اس تحریر میں بہت ہی زیادہ خاص الفاظ کے بارے میں بتایا جارہا ہے جن کو آپ کھانا کھانے سے پہلے صرف چار مرتبہ پڑھ لیا کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے پاس کروڑوں روپے آجائیں گے آپ کا گھر پیسوں سے بھر جائے گا آپ کا گھر دولت سے بھر جائے گا آپ کی جیب کبھی خالی نہیں رہے گی آج جس عمل کے بارے میں بتایا جارہا ہے یہ عمل اتنا خاص ہے

اور اتنا پاور فل عمل ہے اور اتنا مجرب عمل ہے کہ اگر آپ اس کو کھانا کھانے سے پہلے پڑھ لیتے ہیں چاہے وہ صبح کا ناشتا ہو دوپہر کا لنچ ہو شام کا ڈنر ہو جب بھی آپ کھانا کھانے لگیں تو صرف چار بار ان الفاظ کو پڑھ لیں جو آپ کو بتائے جارہے ہیں یقین کیجئے پورے یقین کے ساتھ آپ پڑھ لیجئے اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے پڑھ لیجئے اور دل میں یہی خیال ہو کہ اے اللہ میری ضرورت کو پورا فرمادیجئے مجھے دولت نصیب فرمادے۔

میرے گھر کو دولت سے بھر دے میرے گھر کی پریشانیوں کودور فرمادے اور رزق سے مالا مال فرمادے تو آپ کا گھر رزق اور دولت سے بھر جائے گا وہ چار الفاظ کونسے ہیں وہ ذہن نشین کرلیجئے کہ کھانا منہ میں ڈالنے سے پہلے آپ نے صر ف چار مرتبہ ان الفاظ کو پڑھ لینا ہے وہ الفاظ ہیں استغفر اللہ شکر الحمد للہ یا وھاب یا رزاق یہ چار ہی الفاظ ہیں اور ان کو آپ نے کھانا کھانے سے پہلے یعنی جب کھانا منہ میں ڈالنے لگیں تو اس سے پہلے صرف چار مرتبہ ہی پڑھنا ہے چار الفاظ ہیں اور چار مرتبہ ہی آپ نے پڑھنا ہے جب بھی کھانا کھانے لگیں تو ان الفاظ کو کبھی بھی پڑھنا مت بھولئے انشاء اللہ آپ دیکھتے جائیں گے کہ آنے والے دنوں میں ہی آپ کا گھر دولت سے بھر جائے گا آپ کے پاس کروڑوں کی جائیدادآجائے گی کروڑوں کے مالک بن جائیں گے اور کبھی آپ کے پاس پیسوں کی کمی نہیں آئے گی یہ عمل ایسا عمل ہے کہ اگر غریب سےغریب آدمی یا بھیک مانگنے والا بھی اس عمل کو کرلیتا ہے۔

تو وہ بھی دولت میں کھیلنے لگ جاتا ہے اس کے پاس بھی دولت آنا شروع ہوجاتی ہے پیسے کی وجہ سے آج کے دور میں صرف آپ ہی پریشان نہیں بلکہ ہر انسان پریشان ہے دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ چلے جائیے وہاں پر بھی آپ کو ہر کوئی پیسے کی وجہ سے پریشان ہوتا ہوا نظر آئے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل ہر گھر میں ضروریات بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں تھوڑے پیسوں سے گزارا ہوتا ہی نہیں اتنے اخراجات بڑھ چکے ہیں کہ کبھی ایک وقت تھا کہ سو دو سوروپے میں آدمی بھینسیں خرید لیتا تھا گاڑیاں خرید لیتاتھا جائیدادیں خرید لیتاتھا لیکن ج وہی سو دوسو روپیہ بچے بھی نہیں لیتے اس قدر مہنگائی کا دور ہے اور اس قدر اخراجات بڑھ چکے ہیں کہ ایک عام آدمی پریشان نہ ہو تو کیا کرے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں