وظائف
آج سے بارہ سو سال پہلے ہارون رشید کا زما نہ تھا جس کی ایک بیوی ملکہ زبیدہ تھی جو بڑی ہی نیک اور اللہ والی تھی۔ ان کا قصہ بہت ہی لمبا ہے مگر میں مختصراً یہاں بتاتا چلوں کہ ملکہ حج کے لیے مکہ مکرمہ آ ئیں تو خبر ملی کہ قحط سالی ہے اور پانی کی وجہ سے سارے حاجی پر یشان ہیں ۔تو اس نے اس پریشان کو دیکھتے ہوئے ایک لمبی نہر کھدوا کر حاجیوں کے لیے پانی کا انتظا م کیا۔ اپنے گھر واپس آ کر اس نے ہارون رشید سے اپنی اس خواہش کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بھی ہاں کر دی اورنہر کھدوانے کا کام فوراً شروع کر دیا گیا۔ بہت لمبی نہر کھو دی گئی ۔ جس پربہت زیادہ محنت اور بے تحاشا پیسہ لگا۔
اس وقت کے لگ بھگ ساٹھ سے ستر دینار جو آج کی کر نسی کے مطا بق کھربوں روپے بنتے تھے۔ کئی سالوں کی محنت کے بعد جب نہر بن گئی تو انجئیر ز نہر پر لگائی گئی رقم کا حساب ایک کاغذ پر لکھ ملکہ کی خدمت میں لا یا اور بتانے لگا۔ یہ حساب کتا ب ہے۔ جتنا بھی خرچہ نہر پر ہوا ہے۔ وہ سارا خرچہ اس پر موجود ہے۔ ملکہ اس وقت دریا کےکنارے پر واقع اپنے محل پر مو جود تھی۔ ملکہ نے جب اس کاغذ کو دیکھا اور بنا دیکھے اس کاغذ کو پھاڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔ کہ اے اللہ ! میں نے اس نہر کا حساب نہیں ما نگا۔ آپ آخرت میں میرا حساب مت لیجئے گا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ ملکہ فوت ہو گئیں۔
اب موت کے بعد کسی کے خواب میں ملکہ کی ملا قات ہوئی۔ تو اسے پو چھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا معاملہ فر ما یا۔ اور ملکہ نے کہا کہ اللہ نے میرے ساتھ نرمی کا معاملہ فر ما یا ہے اور مجھے معاف کر دیا ہے اور مجھ پر اپنا خاص کرم فر ما یا ہے جس سے میں خوش ہو گئی ہوں۔ تو جواب آ یا کہ ظاہر ہے کہ آپ نے نہر کھدوائی ۔ اس پر کام کر وایا ۔ اور اتنا خرچہ کیا ۔ اور اس خرچے کا حساب بھی نہیں ما نگا۔ تو ظاہر ہی سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ پرر حم فر ما نا تھا۔ اور آپ کو بخشنا ہی تھا۔ ملکہ کہنے لگی کہ ایک دن کھا نا کھا رہی تھی۔ کھانے کے دوران اذان شروع ہو گئ۔ میرے سر پر دپٹہ نہیں تھا۔ میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا لقمہ میں نے نیچے رکھا اور اپنے دپٹے سے میں نے سر کو ڈھانپا اور پھر لقمہ کھا یا۔ بس یہی ادا اللہ تعالیٰ کو پسند آ گئی اور اللہ نے مجھے بخش دیا۔ جب اللہ کے آگے پیش کی گئی تو اللہ نے اسی عمل کا بہانہ بنا یا۔