دین اسلام
اس دعائے حاجت کو آپ نے مانگنا ہے جب آپ اس کو اللہ سے مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ ہر خوف سے آپ کی حفاظت بھی فرمائے گا اور آپ کے دشمنوں پر اللہ تعالیٰ آپ کی مدد بھی کرے گا اور آپ کو غنی بھی کرے گا اور ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں سے آپ کا خیال بھی نہ جائے اور آپ کی زندگی آپ پر آسان کر دے گا اور اس کے بارے میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر یہ پڑھے تو جتنا بھی قرض ہوگا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ادا ہوجائے گا چاہے وہ قرضہ پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہو ۔ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں بارش نہیں ہورہی تھی تو لوگ آئے حضرت موسیٰؑ کے پاس اور دعا کی اپیل کی تو حضرت موسیٰؑ اپنی امت کو لے کر نماز اور دعا کے لئے نکلے اور دعا مانگی تو آپ نے کیا دیکھا کہ دھوپ اور تیز ہوگئی۔
تو موسیٰؑ نے عرض کی یا اللہ میں نے تو آپ سے بارش مانگی اور آپ نے دھوپ اور زیادہ کر دی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰؑ یہ تیرے جو ساتھی ہیں ان میں ایک شخص ایسا ہے جس نے پچھلے چالیس سال سے مجھے ناراض کیا ہوا ہے اور اس کی نافرمانی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ جب تک وہ کھڑا ہے اس کی نحوست سے میں بارش نہیں کروں گا اس کو نکال دو تو میں پھر بارش کروں گا یہ میرے اللہ نے فرمایا حضرت موسیٰ ؑ سے تو معاملہ دیکھئے کہ کہاں تک پہنچا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی دعا بھی رک گئی موسیٰؑ کون ہیں لا الہ الا اللہ موسیٰ کلیم اللہ تو ان کی دعا بھی رک گئی ان کی امت کی تو پہلے سے ہی رکی ہوئی تھی کہ اس بندے کی برائی کا لیول اتنا زیادہ ہے تو موسیٰؑ نے اعلان فرمایا جو ایسا شخص ہے وہ ہماری جان چھوڑ جائے اور باقیوں کو راحت ملے تو اس بندے نے یوں دائیں دیکھا اسے کوئی نظر نہیں آیا۔
پھر اس نے اپنے بائیں دیکھا کہ شاید میرے علاوہ کوئی اور بھی ہو اور تو کوئی نکلا نہیں تو اس نے سوچا آج میں مر گیا اب اگر میں نکلتا ہوں تو ذلیل و خوار ہوتا ہوں اور اگر میں نہیں نکلتا تو یہ سارا ملک جو بارش سے محروم ہے تو اب وہ گناہگار شخص اللہ سے بات کرنے لگا تو تھوڑا سا آپ تجزیہ کیجئے کہ یہ جو اب اللہ سے اپیل کرنے لگا ہے اللہ کی محبت میں نہیں اپنی عزت بچانے کے لئے اس فرق کو آپ تھوڑا سا سمجھئے کہ میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے صرف اللہ کی محبت میں اس کے خوف میں اس کے شوق میں یہ تو ہوگئی ایک نمبر کی توبہ اور اللہ سے رجوع اور دوسرا کہ میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری عزت بچ جائے میرا مال بچ جائے میں بچ جاؤں تو یہ دونمبر کام ہے اس میں براہ راست اللہ مطلوب نہیں ہے اس میں صرف اپنی عزت بچانا مطلوب ہے اور یہاں پر کچھ اسی قسم کی توبہ ہے پچھلے چالیس سالوں کی نافرمانی تو ہے اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی اتنی زیادہ نافرمانی کہ ایک نبی کی دعا بھی رک گئی۔
تو جو اس نے کہا وہ یہ ہے میرے مولیٰ چالیس سال تیری نافرمانی کی اور تو مجھے چھپاتا رہا مجھے آج بھی چھپا لے میں معافی مانگتا ہوں اور یہ کس بات پر کہہ رہا ہے کہ میں معافی مانگتا ہوں کہ کہیں بے عزت نہ ہو جاؤ ذلیل نہ ہوجاؤں تو دیکھیں کہ اس دو نمبر کام پر بھی میرے اللہ نے کیا کیا تو وہ اللہ ایک نمبر پر کیا کیا نہیں کرے گا گھٹا اٹھی اور بارش حضرت موسیٰؑ حیران ہو کر اللہ سے کہنے لگے یا اللہ آدمی تو ایک بھی نہیں نکلا تو بارش کیسے ہوگئی سارا مجمع ان کے سامنے تھا ۔میرے اللہ کریم نے فرمایا موسیٰ جس کی وجہ سے روکی تھی اسی کے طفیل کر دی اتنی جلدی بھی کوئی سنا کرتا ہے اتنی جلدی بھی کوئی مانتا ہے جتنی جلدی میرا اللہ سنا کرتا ہے اور جتنی جلدی میرا اللہ ضروریات کو پورا کرتا ہے تو اس واقعے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اپنی حاجات کو بلا واسطہ اللہ سے طلب کیجئے اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کیجئے اللہ آپ کے معاملات کو آسان فرمائیں گے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین