اردن کے شمالی صحرا میں ایک درخت ایسا ہے جو گذشتہ 1400سال سے آج بھی ہرا بھرا ہے اور اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ اس درخت کے نیچے نبی کریم ﷺنے آرام فرمایا تھا۔اس درخت کے اردگرد سینکڑوں کلومیٹر تک کوئی درخت یا پودا نہیں ہے اور یہ درخت تنہا لک و دک صحر امیں کھڑا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ نے اس درخت کو آج بھی قائم رکھا ہے۔اس درخت کو جو اعزاز حاصل ہے وہ کسی اور درخت کو نہیں جس کی وجہ سے اسے ’صحابی درخت‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اور یہ اللہ کی قدرت ہے کہ یہ درخت صدیاں گزر جانے کے بعد بھی صحیح سلامت ہے۔روایت ہے کہ اس درخت کے نیچے کوئی نہیں جاسکتا تھا اور جو بھی اس کے نیچے جانے کی کوشش کرتاوہ خوفزدہ ہوکر بھاگ جاتا۔ عیسائی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس درخت کے نیچے صرف نبی آخری الزماں ﷺٹھہریں گے۔اس درخت کے قریب ہی ایک گرجا گھر تھا ، جہاں ایک خانقاہ میں بحیرانامی انجیل کا بہت بڑا عالم مقیم تھا۔یہ اس علاقے میں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا۔بحیرا ایک گوشہ نشین شخص تھا ،اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا اور شہر کے لوگوں سے اس کے روابط بالکل نہیں تھے۔اس کی تحقیق تھی کہ ادھر سے نبی آخر الزمانﷺ کا گزر ہوگا، چنانچہ وہ یہاں آنے جانے والے ہر قافلے کو کھڑکی سے بغور دیکھا کرتا تھا۔
مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کی اسے تلاش تھی لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ ایک عرب سے آیا ہوا قافلہ وہاں رکا۔بحیرانے دیکھا کہ ایک ہستی اس درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں اور درخت کا سایہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔نبی کریم ﷺکے ساتھ میسرہ بھی تھے جوکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔بحیرابھاگتا ہوا میسرہ کے پاس پہنچا اور کہا ”اس درخت کے نیچے صرف ایک نبی ہی استراحت فرماسکتے ہیں۔“بحیراکو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ نبی کریم ﷺسے ملا۔