پاکستان نے 2017 میں 2640 کلومیٹر طویل افغان سرحد پر باڑ لگانے کافیصلہ کیا ،تاکہ سرحدکی دوسری جانب سے دہشتگردوں کے حملو ں اور آمدورفت کوروکا جاسکے۔اب الحمدوللہ پاک فوج نے افغان بارڈر پر 2640 کلو میٹر لمبی باڑ کو ممکمل کر لیا ہے ۔اس باڑ میں 8 کراسنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں ۔جن میں طورخم اور چمن بھی شامل ہیں ۔باڑ کا مقصد اسمگلنگ اور دہشتگردی کی روک تھام ہے۔ اس پر ٹوٹل 532 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے ۔

اس باڑ کو لگانے میں کتنے ہی وطن کے بیٹوں نے جام شہادت نوش کیا ہے ،اور بہادری سے لڑتے ہوئے اپنا لہو قربان کیا ہے۔چایئے وہ خیبر کے سنگلاخ پہاڑ ہو یا پھر وزیرستان کے خطرناک بارڈر ہو پاک فوج کے جوانو ں نے دن رات کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لاتے لاتے ہوئے جوانو ں نے امن کی اس دیوار کو مکمل کیا۔ ان تمام شہیدو ں اور غازیوں کو سلام جنہوں نے اسے مکمل کر کے دشمن کا راستہ بند کردیا۔ ان شہدائے وطن کو سلام جو اس فریضے کے تکمیل میں اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ڈیورنڈ لائن کے دعوے اور اسکے حقائق ۔

پہلا دعوٰی: ۔معاہد ہ 100 سال کے لئے تھا۔ حقیقت:ڈیورینڈ لائن معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں جو اسے کسی خاص مدت تک محدود کرے،نہ 10 سال نہ 100 سال اور نہ 1000 سال۔ دوسرا دعوٰی :افغان امیر سے زبردستی دستخط لیے گئے۔ حقیقت:یہ معاہدہ صرف “دستخط ” نہیں تھے ،اس سے چار مشترکہ کمیشن بنے جنہوں نے کئی سال لگا کر ہزاروں کلومیٹر سدحد بندی کی اور افیشلز معاہدے لکھے ۔ ڈیورنڈ معاہدے کے تحت چار حد بندی کمیشن ہندو کمیشن (واخان سے خیبر ) کرم کمیشن (خیبر سے ٹوچی) بلوچستان کمیشن (گومل سے تفتان ) وزیرستان کمیشن ( ٹوچی سے گومل) ان کمیشنز نے 1894 سے 1896 تک تفصیلی زمینی حدبندی کر کے سات معادو ں کر دستخط کئے جس سے تقریباٰ پوری سرحد کور ہوگئی ۔یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں افغان بادشاہ کو برطانیہ سے 18 لاکھ سالانہ الاؤنس ملا جو 1919 تک ہر بادشاہ سال بہ سال لیتا رہا (برطانیہ نے 1919 کی جنگ کے بعد سزا بندکردیا )،لہذا جس معاہدےپر “زبردستی دستخط” لیے جائیں اسکے تحت 26 سال تک “خوشی خوشی الاؤنس” لیا جاتا ہے؟ تایخی حقیقت : ڈیورنڈ معاہدے کے ذریعے افغانستان کو ہزاروں کلومیٹر پر مشتمل آزاد خطہ “کافرستان ” مل گیاجو 1893 سے پہلے اس کا حصہ نہیں تھا۔

کنڑ کے شمال میں بدخشاں تک اس علاقے کا نام “نورستان” رکھا ۔یہ ڈیورنڈ معادے کا وہ پھل ہےجس کا افغانستان کبھی ذکر نہیں کرتا۔ دعویٰ:ڈیورنڈ معاہدہ ذاتی حیثیت میں ہوا ،اسکی حکومتی سطح پر توثیق نہیں تھی۔ حقیقت : امیر حبیب اللہ نے 1905 میں ڈیورنڈ معادے کی توثیق کی،افغان وزیرداخلہ کی زیر قیادت حکومتی کمیشن نے 1919 میں بطورحکومت توثیق کی۔ افغان وزیر محمود طرزی نے 1921 میں پھر “سرکاری توثیق” کی ۔ دعوی : ڈیورنڈمعاہدہ متحدہ ہند اور افغانستان کے مابین تھا ،1947 میں تقسیم ہند کے بعد ختم ہوگیا۔ حقیقت: ان معاملات سے متعلق “ویانا کنو نشن”کے ارٹیکل 11کے تحت ملکوں کی تقسیم وی سی ایس ایس آر ٹی کے سبب ان کے کئے ہوئے معاہدے ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کے بطن سے نکلنے والے ممالک ان کے پابند ہوتے ہیں۔اہم نکتہ (افغانستان کی چین ایران ازبکستان کیساتھ سرحدوں کی حد بندی میں روس /برطانیہ نے (افغان حکومت شامل نہیں کی تھی)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں