لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): کارگل کی جنگ کے حوالے سے کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب ’’استغفراللہ جنٹلمین‘‘ میں جہاں اس محدود جنگ کے پس پردہ حقائق وواقعات کو ناقدانہ طور پر بیان کیا ہے وہاں اس جنگ کے شہدا کے ایسے واقعات رقم کئے ہیں جن کی داستانیں پڑھ کر ہر کسی کا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے ،ان بہادورں کو دشمن نے بھی خراج تحسین پیش کیا ۔کرنل صاحب نے کتاب میں اس بہادر افسر کیپٹن امتیاز کا بھی ذکر کیا ہے جس نے دشمن کا ناطقہ بند کئے رکھا اور بعد از شہادت دشمن نے انکی لاش احترام کے ساتھ پاک فوج کے حوالے کردی تھی ۔کیپٹن امتیاز کی جیب سے انکی اہلیہ کے خطوط بھی برآمد ہوئے تھے جس پر دشمن کے سپاہی مذاق بھی اڑاتے رہے کہ یہ کپتان تو عاشق نکلا ۔کرنل صاحب لکھتے ہیں ’’یہ ایک ایسے فرد کی شخصیت کی جھلکیاں ہیں جسے ہم ’’دشمن ‘‘ کے ناپسند یدہ نام سے پکارتے ہیں، پاکستانی فوج کی ۱۶۵مارٹر رجمنٹ کا کیپٹن امتیاز ملک۔
کیپٹن امتیاز ملک ۷جولائی کو پوائنٹ ۴۸۷۵ کی شدید جھڑپ میں جان ہار گیا۔جہاں وہ یہ جانتا تھا کہ لڑتے کیسے ہیں، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ محبت کیسے کرتے ہیں۔ اس کے سینے کی جیب سے ایک خط برآمد ہوا جو اس کی بیوی ثمینہ نے اسے لکھا تھا۔ یہ نیلے رنگ کا ایک مڑا تڑا کاغذ تھا جس پر کیپٹن امتیاز کے خون کے دھبے تھے۔ لفافے کی مہروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے ثمینہ نے ۱۴ جون کو اسلام آباد میں سپرد ڈاک کیا تھا۔ شاید یہ آخری خط تھا جو کیپٹن امتیاز کو لکھا گیا۔ کیپٹن امتیاز نے جو کاغذات آخری وقت تک سنبھالے رکھے ان میں اس کی بیوی کے دو اور سندیسے بھی تھے، ویسے ہی جیسے نوجوان عاشق ایک دوسرے کو لکھا کرتے ہیں۔ ان خطوں کے مندرجات کا انکشاف مرنے والے کی رازداری کا افشا اور اس کی بیوہ کے غم میں اضافے کا سبب ہو گا۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ کیپٹن امتیاز ایسا شخص تھا جسے اس کے چاہنے والے بہت چاہتے تھے اور وہ بھی اپنے چاہنے والوں سے اتنا ہی پیار کرتا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو بھلا وہ اپنی بیوی کے خط میدان جنگ میں بھی سینے سے کیوں لگائے رکھتا۔
انفنٹری کے ان دستوں کے نزدیک جنہوں نے کیپٹن امتیاز کی ذاتی اشیاء قبضے میں لی تھیں ، یہ خط لمحاتی خوشی اور تضحیک کا نشانہ بنے تھے۔ ایک فوجی نے پوائنٹ ۴۸۷۵ پر سے سمیٹی جانے والی اشیاء اگلے مورچوں کے ایک خیمے میں پھیلاتے ہوئے کہا’’ یہ شخص شاید خود کو رومیو سمجھتا تھا کہ محاذ جنگ پر بھی اسے کوئی فکر تھی تو ان محبت ناموں کی‘‘۔یہ فوجی(بھارتی) پوائنٹ ۴۸۷۵ پر زبردست جنگ سے لوٹے تھے، کیپٹن امتیاز پر پھبتیاں کس کر دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ امتیاز اور اس کے ساتھیوں نے بھارتی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ انہوں نے بہت سے بھارتی فوجیوں کو زندگی سے محروم کیا، اور کتنے ہی افراد زخمی کئے تھے، تو ظاہر ہے کہ بھارتی فوجیوں کی نظروں میں کیپٹن امتیاز کے لیے کہ وہ پاکستانی فوج کی ایک پلاٹوں کا کمانڈر تھا، اور کیا احساسات ہو سکتے تھے۔ وہ مر چکا تھا۔ اب اس کے خلاف تو کچھ ہو نہیں سکتا تھا

لیکن اس کی چھوڑی ہوئی چیزوں کا مذاق تو اڑا یا جا سکتا تھا۔ تاہم ان کے افسر نے انہیں تنبیہہ کرتے ہوئے کہا ’’وہ بھی ہماری طرح ایک انسان تھا، ایک انسان اور فوجی جو احکامات کا پابند تھا۔ وہ بھی کسی خاندان کا فرد تھا۔ کسی کا بیٹا ، کسی کا شوہر۔ ہم بھی تو گھر سے آئے ہوئے خطوں کو اسی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ‘‘
افسر کے ہاتھ میں ایک خط تھا جو پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر نے کیپٹن امتیاز کو آرٹلری کے کسی سپیشل کورس کے لیے منتخب ہونے پر مبارک دیتے ہوئے لکھا تھا۔ شفقت بھرے اس خط میں کیپٹن امتیاز کی بھرپور تعریف کی گئی تھی۔ اس خط کے مندرجات سن کر ایک بھارتی فوجی نے تبصرہ کیا ’’ان کے سینئر بھی اسی طرح جونیئر افسروں کو خط

اپنا تبصرہ بھیجیں