میں آج بہت اُداس ہوں ۔ آج میری زندگی کے سب سے بڑے محسن میاں جمیل اس دنیا سے چلے گئے ۔یہ آج سے نصف صدی قبل کی بات ہے جب اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ سائیکل مرمت کی دکان پر بطور شاگرد کام کرتا تھا ۔ اُستاد روٹی کے علاوہ آٹھ آنے روز بھی دیتا تھا جس سے میرے گھر کی دال روٹی چلتی تھی ۔ ایک دن ایک صاحب اُس دکان پر اپنی سائیکل کو پنکچر لگوانے آئے ۔ میں نے انہیں کولر سے ٹھنڈا پانی پیش کیا ۔ کرسی کو صاف کر کے انہیں بیٹھنے کی دعوت دی ۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے بات چیت شروع کر دی ۔
میں نے انہیں اپنے حالات بتائے اور اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے پر افسردگی کا اظہار کیا ۔ وہ ایک اچھے انسان تھے ۔ انہوں نے چند دن بعد ہی اپنے دفتر میں مجھے نائب قاصد رکھوا دیا ۔ اب مجھے صبح سے رات گئے تک کام کرنے سے نجات مل گئی۔ دو بجے سرکاری دفتر بند ہو جاتا تھا ۔ جمیل صاحب نے مجھے دسویں جماعت کی کتابیں لے دیں اور مجھے حکم دیا کہ میں شام میں اُن کے پاس پڑھنے کے لئے آؤں ۔ میاں صاحب نے ہی بورڈ میں میری داخلہ فیس بھیجی ۔ اُن ہی کی توجہ اور محنت سے میں نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ میٹرک پاس کرتے ہی میاں صاحب نے مجھے اُسی دفتر میں کلرک بنوا دیا اور مجھے انٹرمیڈیٹ کی کتابیں خرید دیں اور پھر سے پڑھنے کے لئے اپنے گھر آنے کا حکم دے دیا ۔
اسی دوران میں نے میاں صاحب کی اجازت سے ہومیوپیتھک کالج کی شام کی کلاسز میں داخلہ لے لیا ۔ اگلے چار سال بعد میں ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی بن چکا تھا اور ساتھ ہی گریجویشن بھی کر چکا تھا ۔ محکمے میں افسران کی پوسٹس آئیں تو مجھے بھی ترقی دے کر گریڈ سولہ کا آفیسر لگا دیا گیا ۔ میں نے شام کے اوقات میں بطور ہومیوڈاکٹر پریکٹس بھی شروع کر دی ۔ میری شادی بہت اچھی جگہ ہو گئی ۔ میری تو پوری زندگی ہی بدل گئی ۔ آج میرا بڑا بیٹا اعلی سرکاری آفیسر ہے ۔ میری دونوں بیٹیاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں ۔ یہ سب اُس نیک انسان کی وجہ سے ممکن ہوا ورنہ آج میری بھی کہیں سائیکل مرمت کی دکان ہوتی اور میں ٹیوب کو پنکچر لگا رہا ہوت
میں سوچ رہا ہوں کہ میں اپنے اُس محسن کا شکریہ کیسے ادا کروں ؟ میرے ذہن میں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ میں بھی ایسے ہی کسی ایک بچے کی اسی طرح مدد کروں ۔ یہ میرا فرض بھی ہے اور مجھ پر میاں جمیل کا قرض بھی ۔