حکایتِ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒایک بچے کو اپنے باپ سے بڑی محبت تھی اتفاق سے اس کا انتقال ہو گیا اور جب اس کا جنازہ جا رہا تھا تو وہ لڑکا بھی جنازے کے ساتھ چل دیا، رو رو کر لڑکے کا برا حال ہو رہا تھا، بڑی چیخ و پکار کرتا جارہا تھا اور کہتا تھا

اے میرے پیارے ابا! آخر یہ لوگ تجھے کہاں لے جا رہے ہیں۔ یہ تجھے مٹی کے نیچے دبانے کے لئے جا رہے ہیں، اے میرے ابا! یہ لوگ تنگ و تکلیف دہ گھر میں لے جائیں گے نہ اس گھر میں بوری ہے نہ بستر، نہ قالین ہے نہ کوئی روشن دان ہے نہ کوئی چراغ کہ جس سے رات کے وقت روشنی ہو سکے نہ اس میں کھانے پینے کے لئے کوئی چیز ہے۔

اے ابا! اس گھر کا تو دروازہ بھی نہیں ہے نہ اس کی چھت ٹھیک ہے نہ بالا خانہ درست ہے اس گھر میں تو روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے نہ اس گھر میں مہمان کے لئے کنویں کا پانی ہے نہ اس کا کوئی ہمسایہ ہے کہ جس سے کوئی دل لگا سکے اور جو مشکل وقت میں سہارا بن سکے۔

ہائے میرے ابا! تیرے پیارے جسم کو یہ لوگ تنگ و تاریک گھر کے سپرد کر آئیں گے اس گھر میں کوئی خوشی سے نہیں جاتا۔غرضیکہ وہ لڑکا اپنے باپ کی جدائی میں رو رو کر اپنا برا حال کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ قبر کے اوصاف بھی گنتا جا رہا تھا اور دونوں آنکھوں سے خون کے آنسو بہاتا تھا۔

شیخ چلی اور اس کا باپ بھی اس جنازے کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے شیخ چلی نے جو لڑکے کو اس طرح روتے اور باتیں کرتے ہوئے سنا تو اپنے والد سے کہنے لگا،

اے والد محترم! اللہ کی قسم! یہ لوگ جنازے کو ہمارے گھر لے جا رہے ہیں۔ اس کے باپ نے شیخ چلی سے کہا، اے میرے بیوقوف بیٹے نادانی کی بات نہ کر۔ شیخ چلی بولا، اے ابا تو اس لڑکے سے علامتیں تو سن اس نے جو نشانیاں بتائی ہیں وہ سب ہمارے ہی گھر کی ہیں۔ شیخ چلی کا جواب سن کر اس کا باپ بیچارہ چپ ہو گیا۔

سبق : اس حکایت میں قبر کے احوال کے ساتھ ساتھ یہ بھی درس ھے کہ دنیا میں بھی بہت سے لوگ بہت برے حالات کا سامنا کر رہے ھوتے ہیں، تو ان کو دیکھ کر ہمیں عبرت پکڑنی چاھئے اور رب کا شکر ادا کرنا چاھئے کہ ہم ایسے حالات میں نہیں ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں