دہشت گردوں کی کمین گاہ میں اکتالیس گولیاں کھا کربھی سپاہی وقاص احمد نے پاک فوج کا رابطہ ٹوٹنے نہیں دیاتھا،مادر وطن کے جانباز کی داستان شہادت آتا ہے۔جہلم شہر سے رانجھا میرا نامی گاوں کی طرف جائیں تو چند کلو میٹر کے فاصلے پر بلال ٹاون اسی بلال ٹاون میں محلہ شاہ پور ہے۔ جہاں مادر وطن کا جانباز وقاص احمد پیدا ہوا اور اسی قبرستان میں پوری فوجی شان و شوکت کے ساتھ دفن ہوا۔ سپاہی وقاص احمد 20جولائی 1989کو جہلم میں پیدا ہوا۔ اس کے والد افتخار احمد حکمت کا کام کرتے ہیں اور حکیم کے طور پر مشہور ہیں۔چھ بہن بھائیوں میں وقاص احمد کا تیسرا نمبر ہے۔ بچپن سے ہی وقاص احمد وقت کا انتہائی پابند تھا اور اپنی اسی خوبی کی وجہ سے سارے گھر والے وقاص احمد کو چھوٹی عمر میں ہی فوجی کہنے لگے تھے۔وقاص احمد انتہائی نرم دل اور رحمدل تھا۔ اپنے تو کیا وہ کسی غیر کو بھی معمولی سی بھی تکلیف میں دیکھتا تو تڑپ اٹھتا اور حتی الامکان اپنی بساط سے بھی بڑھ کر اس کے کام آنے کی کوشش کرتا۔ وقاص احمد کے خاندان میں کوئی بھی فوجی نہ تھا۔ مگر اس کی امی کی بڑی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پاک فوج کا حصہ بنے۔

چنانچہ میٹرک کرنے کے بعد وقاص احمد ریکروٹنگ آفس گیا اور آرمی میں بھرتی ہو گیا۔ یقیناًاللہ تعالیٰ نے اسے شہادت کے لئے چُن لیا تھا۔ اس لئے بغیرکسی معمولی سی بھی رکاوٹ کے وہ پنجاب رجمنٹ میں بھرتی ہو گیا۔ ضروری عسکری ٹریننگ کے بعد اس کی ٹرانسفر 55پنجاب رجمنٹ میں ہو گئی۔ اپنے حسن اخلاق اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت وہ جلد ہی 55پنجاب رجمنٹ کے سپاہی سے لے کر کمانڈنگ آفیسر تک ہرایک کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ انہی دنوں ارض وطن پر دہشت گردی کا خون آشام آسیب نجانے کہاں سے در آیا۔ روازنہ سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو دوچار انسانی قالب میں چھپے ہوئے درندے خودکش جیکٹس اور طرح طرح کے خوف ناک آتشیں ہتھیاروں سے خون میں نہلانے لگے۔ مسجد یں، امام بارگاہیں، چرچ غرضیکہ کوئی بھی عبادت گاہ محفوظ نہ رہی۔ پررونق مقامات، تفریحی گاہوں اور پرہجوم مقامات پرخوف کے سائے منڈلانے لگے۔ لوگ سکولوں، کالجوں اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کو بھیجنے سے ڈرنے لگے۔

اس پرہو اور خوف سے بھرپور فضا کا طلسم توڑنے کے لئے پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے انتہائی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ان خون آشام درندوں کو نکیل ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پوری فوج اپنے سپہ سالار کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان موت کے ہر کاروں کے خلاف سینہ سپر ہو گئی۔ آرمی نے بلاامتیاز دہشت گردوں کو پوری قوت سے کچلنا شروع کر دیا۔ ملک بھر میں جہاں جہاں ان دہشت گرد درندوں کی کمین گاہیں تھیں انہیں ان کمین گاہوں سے ایک چوہے کی طرح بلوں سے نکال کر تباہ وبرباد کرنا شروع کر دیا۔ وقاص احمد کو 55پنجاب رجمنٹ سمیت دہشت گردوں کے مستقر جنوبی وزیرستان بھیج دیا گیا اور وانا میں آپریشن شروع کر دیا گیا۔ یہ غالباً وقاص کی شہادت سے ایک دن پہلے کی بات ہے کہ اس نے سارے گھروالوں سے خوب جی بھر کر باتیں کیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم انشا اللہ دو ماہ بعد واپس آ جائیں گے۔ مگر خدا نے اسے اپنی راہ میں شہادت کے عہدے پر فائز کرنے کے لئے چُن لیا تھا۔ یہ بارہ جولائی 2013 دو رمضان المبارک اور جمعہ کا دن تھا۔ دشمن کی گھات کی وجہ سے کمیونیکیشن کا سلسلہ اچانک منقطع ہو گیا۔ عسکری زندگی میں اور خاص کر میدان جنگ میں کمیونیکیشن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ وقاص احمد کے تین ساتھی رابطہ بحال کرنے کے لئے اپنی جگہ سے نکلے۔ سپاہی وقاص احمد نے انہیں دیکھا تو وہ بھی ساتھ ہو لیا۔ حالانکہ یہ اس کی ڈیوٹی نہیں تھی۔ فوج میں ہر کام کے لئے مخصوص افراد ہوتے ہیں۔ ساتھیوں نے اسے منع بھی کیا۔ مگر شہادت اسے اپنی بانہوں میں بھرنے کے لئے اسے جائے شہادت پربلا رہی تھی۔

چنانچہ وہ ضد کر کے ساتھ چلا گیا۔ کچھ دور انہیں وہ پول (کھمبا)نظر آ گیا۔ جہاں سے ٹیلی فون تار ٹوٹ کر لٹک رہی تھی۔ جس کی وجہ سے کمیونیکیشن بریک ہو گیا تھا۔فوجی حکمت عملی کے مطابق ایک ساتھی ان سے دور چلا گیا۔ تاکہ دشمنوں کی طرف سے فائرنگ کی صورت میں کور فائر دے سکے۔ دو ساتھی کھمبے سے تھوڑی د±ور پوزیشن لے کر بیٹھ گئے۔ جبکہ وقاص احمد کھمبے پر چڑھ کر تاریں جوڑنے لگا۔ تاریں جوڑنے کے بعد وہ نیچے اترنے ہی لگا تھا کہ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ قریب ہی گھات لگائے دہشت گردوں نے دھاوا بول دیا تھا۔ کھمبے سے ہی وقاص نے دیکھا کہ اس کے تینوں ساتھی خاک و خون میں نہا چکے تھے۔ وقاص احمد کے دل میں رائی برابر بھی خوف نہ تھا۔ اس نے تیزی سے کھمبے سے چھلانگ لگائی،اس دوران وہ اپنا فریضہ ادا کرچکا تھا۔اس نے دشمن پر فائر شروع کر دیا۔ وقاص کی جوابی فائرنگ سے دہشت گردوں کی فائرنگ کا سلسلہ رک گیا۔ تب وقاص نے اپنے قریبی دونوں ساتھیوں کو جو کہ شہید ہو چکے تھے اپنے کندھوں پر لاد کر کیمپ کی جانب بڑھنے لگا۔ مگر ابھی دو قدم بھی نہ اٹھا پایا تھا کہ آتش و آہن کا ایک برسٹ آیا اور اکتالیس گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گیا۔ ایک گولی اس کے موبائل فون پر بھی لگی یوں وہ اپنے گھر سے دور ارض وطن پر اپنی جوانی کی سوغات لوٹا کر امر ہو گیا۔ شہادت کے تین ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹے سے نوازا جس کا نام حیدر وقاص رکھا گیا جو اب ، تین سال کا ہو گیا ہے۔ اور توتلی زبان اپنے شہید بابا کی فوٹو دیکھ کر ابا ابا کہتا ہے۔ راہ حق میں جانیں لٹا دینا بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ مگر جن ماوں کے جوان کڑیل بیٹے یوں چپ چاپ دنیا والوں سے ناتا توڑ کر راہ حق کے مسافر بن جائیں اور اس پار ستاروں اور کہکشاوں کے دیس جا بسیں، ان ماوں کی آنکھوں کے سوتے کبھی بھی خشک نہیں ہوتے۔

سپاہی وقاص حسین شہید ہو کر زندہ جاوید ہو گیا۔ جس چارپائی پر وقاص سویا کرتا تھا اس کی ماں اس کی طرف دیکھ کر آج بھی روتی رہتی ہے۔ وہ موٹر سائیکل جو وقاص سواری کے لئے استعمال کرتا تھا۔ وہ آج بھی کمرے میں کھڑی اپنے مالک کی آمد کی منتظر ہے۔ کاش کوئی اسے بتائے کہ سپاہی وقاص احمد تو دنیاوی رشتوں سے بے نیاز ستاروں اور کہکشاوں کے دیس کا وہ باسی بن چکا ہے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آیا کرتا۔ وہ وطن کی حرمت پر قربان ہو گیا۔ وہ وطن کا نام باقی رکھنے کے لئے خود تو مٹ گیا مگر اس کے پائے استقامت میں ایک لمحے کے لئے بھی لغزش نہیں آئی۔ وہ جا چکا ہے مگر ارض وطن کے ہر نقش میں اس کا پَرتو ہے۔ یقیناًسب سے بڑی قربانی خاک وطن میں ہنستے کھیلتے اپنا لہو سینچنا ہے۔ جب تک ہمارے بہادر سپاہی اپنے لہو سے یہ آبیاری کرتے رہیں گے ارض وطن پر یوں ہی پھول کھلتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں