لاہور (ویب ڈیسک) لاہور کے غازی میاں اعجاز احمد مرحوم کی ہے جن کا پاک فوج کے ساتھ رشتہ ان کی وفات تک اتنا مضبوط رہا کہ انہیں ایک فوجی کی حیثیت سے یا د کیا جاتا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان رسالہ “ہلال” میں کرنل خواجہ وحید نے جب میاں اعجاز کی پاک فوج کے نامور مضمون نگار امجد حسین امجد اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لئے محبت، جانثاری اور عملی تعاون کا تذکرہ کیا تو جی ایچ کیو راولپنڈی سے خاص طور پر 27 مارچ 1979ء کو میاں اعجاز احمد کی محبت کے حوالے سے اعترافی خط لکھا گیا۔اور ان کی خدمات کو سراہا گیا۔میاں اعجاز احمد کے لئے پاک فوج کا یہ ابتدائی جذبہ ایک خاص پس منظر رکھتا ہے عوامی حلقوں کی طرف سے پاک فوج کے لئے محبت کے اظہار کا آغاز یوں ہوا کہ 1971کی پاکستان بھارت لڑائی سے پہلے کے رمضان المبارک میں میاں اعجاز احمد اپنی خاندانی حب الوطنی کے پس منظر میں ایک دن اٹھے،
افطاری کا سامان خریدا اور راوی پارآرمی کی ایک یونٹ ”ساتھ ساتھ“کے پاس جاکر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔عام طور پر آرمی کی طرف سے اس طرح کی دعوت قبول نہیں کی جاتی، لیکن یہ میاں اعجاز احمد کا جذبہ حب الوطنی تھا اور ان کے دلی خلوص، ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے چہرے کی رونق سے کچھ ایسا منظر ابھرا کہ رجمنٹ کے انچارج کمانڈنگ آفیسر نے اجازت دے دی کہ جوان میاں صاحب کے ساتھ افطاری کرلیں۔ بس وہ دن اور عمر عزیز کا آخری دن میاں اعجاز احمد اس رجمنٹ کا عزیز حصہ بن کر ر ہ گئے، پہلی افطاری کے تعلق کے بعد پاک بھارت لڑائی چھڑ گئی تو میاں صاحب ہر قدم پر پاک وطن کے جانثاروں کے ساتھ ساتھ تھے یہ رجمنٹ دشمن سے نبردآزما تھی،اور میاں صاحب گویا عوام کی علامت بن کررہ گئے تھے جو دشمن سے نبردآزما ا ور فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے کا باعث تھی، اس لڑائی میں میاں صاحب اگلے مورچوں کی طر ف رواں دواں رہتے۔ا ن کی آنکھوں میں غازیوں کا وطن کی حفاظت کے لئے پر جوش انداز میں جھپٹنا اور بہادر بیٹوں کی قربانی گویا سب کچھ محفوظ ر ہا اور وہ اس کا اکثر ذکر کرتے رہے۔ میاں صاحب نے لڑائی کے دوران اگلے مورچوں میں رہ کر اپنی رجمنٹ کا حصہ بن کر دکھایا اور ضرورت پڑی تو جواب بھی بھرپور انداز میں اور ایک مجاہد غازی کی حیثیت سے دیا۔
اور قرون اولی کے مجاہدینکی یاد تازہ کر دی۔آج کل مغربی طاقتیں مسلمانوں کو جذبہ جہاد سے دور کرنے کے لئے بیشمار کوششیں کر رہی ہیں۔مگر ہماری بہادر قوم اپنے اسلاف کی گرانقدر خدمات کو رائیگاں نہیں جانے دے گی اور آنے والے دنوں میں بھی جرائت اور بہادری کی ایسی داستانیں رقم کرے گی جن پر آنے والے لوگ فخر کر سکیں گے۔اس لڑائی کے بعد جب حالات نارمل ہوئے اور رجمنٹ کینٹ ایریا میں آگئی تو کچھ عرصہ بعد کمانڈنگ آفیسر نے میاں صاحب کو باضابطہ یونٹ کے وزٹ کے لئے دعوت دی اور میاں صاحب نے دعوت قبول کرتے ہوےً یونٹ کارخ کیا، اب میاں صاحب کاخلوص یونٹ کے ہر آفیسر اور ہر جوان پر واضح تھا۔چنانچہ باہمی محبت کے روح پرور مناظر سامنے آئے،اس وزٹ میں میاں صاحب کو پہلی آفیشل شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔اس پہلے وزٹ کے بعد تو پھرایسا باہمی رشتہ استوار ہوا کہ مذکورہ یونٹ برف پوش پہاڑوں پر یاکسی ریگستان میں بھی ہو میاں صاحب اپنی جان اور صحت کی پروا کیے بغیر وہاں پہنچے۔اور یونٹ کی تقریبات اور بڑے کھانوں میں حصہ لیا۔میاں اعجاز ا حمد کی آرٹلری سے بے لوث محبت، وابستگی اور خدمت کے باعث1981ء میں آرٹلری ڈائریکٹو ریٹ نے ان کو “فرینڈ آف آرٹلر ی” کے اعزاز سے نوازا۔ اور ایک یاد گار ی شیلڈ بھی دی۔ میاں اعجاز احمد نے انتہائی ساد ہ زندگی بسر کی اور آنے والی نسلوں کے لئے پاک فوج سے اخو ت اور محبت کا ایک بیج بوگئے۔ اور 29دسمبر 2012ء کو مختصر علالت کے بعد لاہورمیں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالی میاں اعجاز احمد کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔