جاسوس کسی بھی ملک کی وہ آنکھ اور کان ہوتے ہیں جو کسی دوسرے ملک جاکر وہاں کی خفیہ معلومات اکھٹی کرتے اور حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کو آگاہی دیتے رہتے ہیں، جاسوسی کیلئے ایجنٹ کسی دوست ملک بھی بھیجے جاسکتے ہیں اور دشمن ملک میں تو ان کی تعداد ان گنت ہوتی ہے اور ہر کوئی اپنے الگ مشن پر ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت اپنے قیام سے اب تک دوستی کے بندھن میں بندھ نہیں سکے، اس کی بنیادی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور وہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح غیر مستحکم اور کمزور کرکے اس نہج پر لے جائے کہ خدانخواستہ یہ ملک ختم ہوجائے یا دوبارہ سے ہندوستان کا حصہ بن جائے۔ بھارت کی ان ہی سازشوں کے نتیجے میں 1971 میں مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش کا روپ دھار چکا ہے اور رہے سہے ملک کے خلاف بھارت کی بھرپور سازشیں زور و شور سے جاری ہیں، وہ تو بھلا ہو ہماری خفیہ ایجنسیوں کا جن کی بدولت بھارت سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سے اب تک کسی مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوپایا ہے اور اس کے درجنوں جاسوسوں کو اعلانیہ اور ہزاروں کو غیر اعلانیہ ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاچکا ہے۔
پاکستانی خفیہ اداروں کی کارکردگی کی مرہون منت مملکت خداد پاکستان ایسے بے شمار سانحات سے قبل از وقت محفوظ رہا جو اگر رونما ہوجاتے تو نجانے کتنی تباہی و بربادی ہوتی، ہمارے یہ جانباز رات ہو دن، آندھی آئے یا طوفان، میدان ہوں یا سمندر، آبادی ہو یا ویرانے ہر جگہ مستعد، ہردم تیار رہتے ہیں لیکن وہ تو اپنا کام کررہے ہین لیکن بحیثیت قوم ہم اپنا کام نہیں کررہے، ہم نے اپنے ارد گرد کی نہ خبر رکھی ہے نہ کبھی کسی مشکوک شکص کی سرگرمیوں کو غور سے دیکھ کر اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرکے مدد کی ہے، ہم صرف اپنے آپ میں مگن ہیں اور اگر یہی بےفکری، بلکہ سنگین غفلت کا سلسلہ جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ دشمن اس غفلت کا فائدہ نہ اٹھالے، اپنے اداروں کی مدد کریں اپنے ارد گرد لازمی نگاہ رکھیں۔ اس کی مثال بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کے جاسوس رویندرا کوشک سے دی جاسکتی ہے جو 1975 میں مسلمان بن کر پاکستان آیا، یہاں اس نے اپنا نام “نبی بخش شاکر” رکھا، کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، یہیں شادی کی ، پاک فوج میں بھرتی ہوا اور میجر کے عہدے تک پہنچا، یہ بھارتی جاسوس ایسا صرف اس لیئے کرپایا کہ بہت سے لوگوں نے بجائے اس کی حرکتوں، سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے بجائے اس کی تصدیق کی، اس کے پاکستانی ہونے کی تائید کی، لیکن بھلا ہو پاکستانی خفیہ اداروں کا وہ اس کے پیچھے 25 برس تک لگے رہے اور آخر کار شواہد جمع کرکے اسے گرفتار کرلیا گیا بعد مین یہ بھارتی جاسوس میانوالی کی جیل میں 2001 میں ہی واصل جہنم ہوگیا۔
بات ہورہی تھی بھارتی جاسوسوں کی ، کلبھوشن جادیو تو سب کو یاد بھی ہے اور اس کی جاسوسی کی داستان بھی سب کوپتہ ہے یہاں ہم آپ کو پاکستان بھیجے گئے کچھ بھارتی جاسوسوں کا مختصرا احوال بتاتے ہیں جو بڑے کروفر کے ساتھ پاکستان آئے لیکن انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کچھ گرفتار ہوئے تو کچھ کو پاکستان نے جان بوجھ کر چھوڑ دیا کہ وہ اپنے ملک جاکر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی طاقت کا اپنے لوگوں کو بتائیں اور ڈرائیں۔ ہوا بھی ایسا ہی جب ان بھارتی جاسوسوں نے واپس جاکر پاکستانی خفیہ اداروں کی طاقت اور مضبوط نیٹ ورک کا بتایا تو بھارتی اداروں میں خوف کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہی ایجنٹوں کو پہچاننے اور اپنانے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کی ناکامیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کمزوری اور بزدلی کا پول نہ کھول دیں، جس کے بعد ان ناکام بھارتی جاسوسوں نے اپنے ہی اداروں کے خلاف احتجاج کیا، دھرنے دیئے لیکن انھیں کچھ نہ ملا۔ رام راج بھارت میں 18 سال تک انٹیلی جنس اداروں میں کام کرنے کے بعد اسے جاسوسی کیلئے 18 ستمبر 2004 میں پاکستان بھیجا گیا، لیکن پاکستانی مار خوروں نے اس سانپ کو اگلے ہی دن یعنی 19 ستمبر کو پکڑ لیا، دوسال تک اسے حراست میں رکھ کر اس سے ساری معلومات اگلوائیں اور پھر اسے جیل بھیج دیا گیا جہاں وہ 6 سال مزید قید رہا جس کے بعد اسے بھارت واپس بھیجا گیا لیکن 2012 سے تاحال بھارتی خفیہ ادارے اپنے اس جاسوس کو قبول کرنے کو تیار نہیں انھیں معلوم ہے کہ رام راج اب کسی کام نہیں رہا۔
گربکش رام بھارت سے خصوصی تربیت کے بعد گربکش رام کو 1988 میں پاکستان بھیجا گیا تاکہ وہ پاکستانی فوج کے زیر استعمال اسلحہ اور گولہ بارود کی معلومات اکھٹی کرسکے، پاکستانی خفیہ اداروں نے اسے کچھ ہی عرصے میں گرفتار کرکے اس کے قبضے سے نہ صرف جمع کردہ دستاویزات برآمد کرلیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم بھارتی انٹیلی جنس کی معلومات گربکش رام سے حاصل کی گئیں اور اسے بعد میں 14 سال کی سزا سنائی گئی، گربکش کو سزا کی تکمیل کے بعد 2006 میں واپس بھارت بھیجا گیا جہاں اس کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیاں اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ رام پرکاش بھارت میں فوٹوگرافر کی حیثیت سے کام کرنے والے رام پرکاش کو خصوصی ٹریننگ کے بعد 1994 میں سیالکوٹ بارڈر کے ذریعے پاکستان بھیجا گیا، تین سال تک وہ چھپتا چھپاتا اپنا کام کرتے ہوئے معلومات جمع کرتا رہا اور جب ان معلومات کو لے کر اس نے واپس جانا چاہا تو پاکستانی ادارں نے جو اسے ڈھیل دے رکھی تھی اسے کھینچا اور فورا گرفتار کرلیا پھر اسے 10 سال کی قید ہوئی، سزا کے خاتمے کے بعد 7 جولائی 2008 کو اسے بھارت واپس بھیجا گیا جہاں آج تک وہ اپنے اداروں کے دھکے کھا رہا ہے۔