حضرت سعد بن معاذ ؓ قبیلہ اشہل کے سردار اور معزز صحابیؓ تھے۔ آپؓ کا نام سعد، ابو عمر وکنیت اور سید الاوس لقب ہے۔آپؓ کا سلسلہ نسب یوں ہے: سعد بن معاذ بن نعمان بن امرو¿ القیس بن زید بن عبد الاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن بنت (عمرو) بن مالک بن اوس۔ آپؓ کی والدہ کا نام کبشہ بنت رافع تھا۔ قبیلہ اشہل ، قبائل اوس میں شریف ترین قبیلہ تھا اور سیادت عامہ اس میں وراثت چلی آتی تھی۔ والد نے ایام جاہلیت ہی میں وفات پائی۔ والدہ موجود تھیں، ہجرت سے قبل ایمان لائیں اور حضرت سعد ؓکے انتقال کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔

سیدنا سعد بن معاذ ؓایمان لانے سے پہلے سیدنا مصعب ؓ کو مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت دینے سے باز رکھنے کے لیے ان کے پاس گئے۔ سیدنا اسعد بن زرارہ ؓ نے سیدنا مُصعب ؓ سے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس ایک ایسا سردار آ رہا ہے، جس کے پیچھے اس کی پوری قوم ہے۔ اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔ سیدنا مصعب ؓ نے سعد بن معاذ ؓ سے کہا: کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کر لیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: انصاف کی بات کہتے ہو، اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ سیدنا مصعب ؓ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں سیدنا سعد ؓ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا: تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ غسل کر لیں، پھر حق کی شہادت دیں، پھر دور کعت نماز پڑھیں۔ سیدنا سعد ؓ نے ایسا ہی کیا۔

اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھایا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے۔ لوگوں نے دیکھتے ہی کہا: ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ سعد (رضی اللہ عنہ) جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسرا ہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔ پھر جب سیدنا سعد ؓ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبد الاشہل! تم لو گ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ ہمارے سردار ہیں۔ سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔ انہوں نے کہا: اچھا تو سنو! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاو¿۔ آپؓ کی اس بات کا یہ اثر ہواکہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہو گئی ہو۔ صرف ایک آدمی جس کا نا م ا±صیرم تھا اس کا اسلام جنگِ احد تک مورخر ہوا۔

سیدنا سعد بن معاذ ؓ مختصر سی اسلامی زندگی کے اوراق پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات بخوبی عیاں نظر آتی ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ ؓ کو جب جب موقع ملا، آپؓ نے بے مثال عزیمت وشجاعت کا مظاہر ہ کیا۔ بالخصوص غزوہ بدر اور غزوہ بنی قریظہ دو ایسے مواقع ہیں جب آپؓ کی فہم و فراست اور اولو العزمی حد درجہ کمال کو پہنچی نظر آتی ہے۔

میدان بدر میں رسول اللہ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ میں درپیش صورتحال کی سنگینی کا تذکرہ فرماتے ہوئے کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر پہلے سیدناابوبکر ؓ ، پھر عمر بن الخطاب ؓ اور پھر مقداد بن عمرو ؓ نے پُرعزیمت کلام کیا۔ تاہم یہ تینوں کمانڈر مہاجرین میں سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ جبکہ رسول اللہ کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کہ وہ لشکر میں اکثریت میں تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہی کے شانوں پر پڑنے والا تھا۔ یہ بات سیدنا سعد بن معاذ ؓ جو کہ انصار کے کمانڈر اور علمبردار تھے، بھانپ گئے۔ چنانچہ انہوں نے عرض کی: بخدا ایسا معلوم ہوتا ہے اے اللہ کے رسول کہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے اثبات میں جواب دیا۔ جس پر سیدنا سعد بن معاذ ؓ یوں گویا ہوئے: ”ہم تو آپ پر ایمان لائے ہیں۔ آپ کی تصدیق کی ہے۔ اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں سب برحق ہے اور اس پر ہم نے آپ کو اپنی سمع و اطاعت کا عہد و میثاق دیا ہے۔ چنانچہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لئے پیش قدمی فرمائیے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں بھی کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک بھی آدمی پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آپ کل ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جواں مرد ہیں۔ اور ممکن ہے اللہ آپ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ پس آپ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں۔ اللہ برکت دے“۔ سیدنا سعد بن معاذ ؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ بہت خوش ہوئے۔

غزوہ احزاب میں سیدنا سعد بن معاذ ؓ کو ایک تیر لگا جس سے ان کے بازو کی بڑی رگ کٹ گئی۔ انہیں حبان بن عرقہ نامی ایک قریشی مشرک کا تیر لگا تھا۔ سیدنا سعدؓ نے (زخمی ہونے کے بعد) دُعا کی کہ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ جس قوم نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور انہیں نکال باہر کیا ان سے تیری راہ میں جہاد کرنا مجھے جس قدر محبوب ہے، اتنا کسی اور قوم سے نہیں۔ اے اللہ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہماری اور ان کی جنگ کو آخری مرحلے تک پہنچا دیا ہے۔ پس اگر قریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی ہو تو مجھے ان کے لیے باقی رکھ کہ میں ان سے تیری راہ میں جہاد کروں اور اگر تو نے لڑائی ختم کر دی ہے تو اسی زخم کو جاری کرکے اسے میری موت کا سبب بنا دے۔ ان کی اس دُعا کا آخری ٹکڑا یہ تھا کہ (لیکن) مجھے موت نہ دے یہاں تک کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہو جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں