جن معصوموں کو لگتا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے آئی ایس آئی کو کوئی فرق پڑتا ہے اور وہ ان سے گھبرا کر بندے چھوڑ دیتی ہے ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔2008ءکے بعدسی آئی اے اور ایم آئی سکس نے نے یہ کوششیں شروع کردی تھیں کہ کسی طرح آئی ایس آئی کو بائی پاس کرکے طالبان سے براہ راست اعلی سطحی رابطہ قائم کرکے ان کے ساتھ انخلاء کے معاملات طے کر لئے جائیں۔ پہلی کوشش میں تو انہیں وہ کوئٹہ وال دوکاندار پھدو بنا گیا جو طالبان کمانڈر بنکر ان سے ملا اور ملینز آف ڈالرز لے کر غائب ہوگیا۔ کیا وہ واقعی کوئٹہ کا کوئی دکاندار ہی تھا ؟ اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ طالبان تک براہ راست رسائی کی دوسری کوشش میں یہ ملا برادر سے رابطے میں کامیاب ہوگئے۔ کھٹمنڈو میں ملا برادر کے ساتھ پہلی تفصیلی بات چیت فرما کر سی آئی اےحکام اور ملابرادر واپس ہوئے تو آئی ایس آئی نے ملابرادر کو اٹھا لیا۔ امریکی بڑے سیخ پا ہوئے۔ کیونکہ وہ سمجھ گئے کہ کھیل بگڑ گیا۔ دو چار روز بعد افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک بڑے جلال کے ساتھ پاکستان پہنچے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ڈی جی آئی ایس آئی کو چک شہزاد کی ایک کوٹھی کی سٹیلائٹ پکچرز دکھاتے ہوئے رچرڈ ہالبروک نے کہا،*

*”میری صدر زرداری سے ملاقات کے دوران مجھے یہ اطلاع مل جانی چاہئے کہ آپ نے ملا برادر ہمیں لوٹا دیا ہے۔ اگر یہ اطلاع نہ ملی تو یہ تصاویر ایک گھنٹے بعد عالمی میڈیا پر اس بریکنگ نیوز کے ساتھ نشر ہوں گی کہ پاکستان اور طالبان گٹھ جوڑ کے ناقابل تردید ثبوت مل گئے ہیں۔ اور اس کے بعد ہم عالمی برادری کی مدد سے آپ کا وہ حال کریں گے کہ عبرت کی مثال بنا دیں گے”* *کہا جاتا ہے کہ ان تصاویر میں ملابرادر چک شہزاد کی کسی کوٹھی کے لان میں آئی ایس آئی کے افسران کے ساتھ شام کی چائے نوش فرما رہے تھے۔ اب اگر غور کیجئے تو صورتحال انتہائی دھماکہ خیز تھی۔ گھنٹے بعد پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہونے کو تھا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے ہاتھ پیر پھول جاتے اور وہ ہالبروک کے آگے لمبا لیٹ جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہالبروک کو پرسکون لہجے میں جواب ملا،* *”اوکے سر ! آپ صدر زرداری سے ملیں اسی دوران آپ تک ملابرادر کی اطلاع پہنچ جائے گی”* *اور ہالبروک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ صدر زرداری سے ملاقات کو روانہ ہوگیا۔ اس ملاقات کے دوران اس کے چیف آف سٹاف کو ایک کال موصول ہوئی، جسے سنتے ہی اس نے ہالبروک کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اطلاع دی،*

*”سر ! پاکستانی میڈیا پر بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ پاکستانی حکام دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے طالبان کمانڈر انچیف ملابرادر کو گرفتار کر لیا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابتک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔”* *دروغ برگردن راوی مگر کہا یہی جاتا ہے کہ ہالبروک کا سانس اس کے گلے میں اٹک گیا اور اس نے بمشکل تمام صدر زرداری سے کہا،* *”مے آئی ہیو آ گلاس آف واٹر ؟”* *اور اسی شرمندگی سے گھل کر ہالبروک بہت جلد آنجہانی ہوا اب اتنا تو آپ کو بھی پتہ ہوگا کہ اگلے آٹھ سال آئی ایس آئی نے ملا برادر کو اپنی تحویل میں “لاپتہ” رکھا، اور امریکہ آٹھ سال تک پاکستان کی منتیں کرکر کے عاجز آگیا کہ اس لاپتہ کو رہا کرو، کیا رہاپاکستان نے ؟ کیا مگر تب جب امریکہ کی گردن اپنے شکنجے میں لے کر اس سے اقرار کروا لیا کہ آئی ایس آئی کو بائی پاس کرکے تمہارا باپ بھی یہاں سے نہیں نکل سکتا۔*
*سو پیارے بچو ! سوشل میڈیا پر سی سی ٹی وی والی شرلیاں چھوڑنے کے بجائے دو چار مستند کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ سمجھ لیجئے کہ انٹیلی جنس ادارے ہوتے کیا ہیں ؟ آپریٹ کیسے کرتے ہیں اور شطرنج کی عالمی بساط پر امریکہ جیسی سپر طاقت کی ناک رگڑوا کر اسے قطر کے اس ہال تک کیسے پہنچاتے ہیں جہاں یہ پوری دنیا کے سامنے دہشت گردوں سے سمجھوتہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جب امریکہ جیسی عالمی طاقت سیٹلائٹ پکچرز ہونے کے باوجود آٹھ سال تک ملا برادر کو نہ چھڑا سکی تو یہ اسکول والا سی سی ٹی کیمرہ کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں