اگر یہ کہا جائے تو اخروٹ پرغذائیت غذا ہے تو یہ بہت کم ہے۔ درحقیقت یہ گری صحت بخش چکنائی، فائبر، وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتی ہے اور یہ تو بس آغاز ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ صحت کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ درحقیقت گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اخروٹ کے بارے میں جتنی دلچسپی سائنسدانوں کی جانب سے نظر آئی ہے وہ حیران کن ہے، یہاں تک کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ہر سال سائنسدان اور ماہرین وال نٹ کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں جس میں اس گری کے حوالے سے تازہ ترین طبی تحقیق پر بات کی جاتی ہے۔اینٹی آکسائیڈنٹس کے حصول کا بہترین ذریعہ اخروٹ میں کسی بھی گری کے مقابلے میں اینٹی آکسائیڈنٹس سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں، یہ سرگرمیاں وٹامن ای، میلاٹونین اور نباتاتی مرکبات پولی فینولز سے ہوتی ہیں۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے کی عادت کھانے کے بعد نقصان دہ کولیسٹرول کے تکسیدی تناﺅ سے ہونے والے نقصان بچاتی ہے۔ یہ فائدہ مند ہے کیونکہ ایل ڈی ایل کا اجتماع شریانوں میں ہوتا ہے جس سے ایتھیروسلی روسس (دل کی ایک بیماری جس میں غیرلچکدار مادہ شریانوں میں جمع ہوجاتا ہے) کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کا حصول اخروٹ میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی مقدار دیگر گریوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے، 28 گرام اخروٹ میں ڈھائی گرام یہ فیٹی ایسڈز جسم کو ملتے ہیں۔ اخروٹ جیسی غذاﺅں میں موجود نباتاتی اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کو الفا لینولینک ایسڈ (اے ایل اے) کہا جاتا ہے جو ایک ضروری جز ہے۔ انسٹیٹوٹ آف میڈیسین کے مطابق مردوں کو روزانہ 1.6 جبکہ خواتین کو 1.1 گرام اے ایل اے کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ مقدار میں اخروٹ سے اسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ اے ایل اے کا روزانہ استعمال امراض قلب سے موت کا خطرہ 10 فیصد تک کم کرتا ہے۔
جسمانی ورم سے تحفظ ورم متعدد امراض بشمول امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ ٹو، الزائمر اور کینسر وغیرہ کی جڑ ثابت ہوتا ہے اور اس کی وجہ تکسیدی تناﺅ ہوتا ہے۔اخروٹ میں موجود پولی فینولز تکسیدی تناﺅ اور ورم سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا پولی فینولز کی ایک قسم ellagitannins کو urolithins میں بدل دیتا ہے جو ورم سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، میگنیشم اور امینو ایسڈ بھی اخروٹ میں ہوتے ہیں جو ورم کو کم کرنے کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ معدے کی صحت بہتر بنائے تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر معدے میں صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا اور دیگر جرثوموں کی تعداد زیادہ ہو، تو ہاضمہ صحت مند رہتا ہے اور مجموعی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں نقصان دہ بیکٹریا کا اجتماع ورم اور معدے کے امراض کا باعث بنتے ہیں، جس سے موٹاپے، امراض قلب اور کینسر وغیرہ کا خطرہ بڑھتا ہے۔ غذا معدے میں موجود بیکٹریا پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے اور اخروٹ کھانا فائدہ مند بیکٹریا اور معدے کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ کئی اقسام کے کینسر سے ممکنہ تحفظ مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اخروٹ کھانا مخصوص اقسام کے کینسر جیسے بریسٹ، مثانے اور قولون وغیرہ کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔ جیسا اوپر بتایا جاچکا ہے کہ اخروٹ میں پولی فینول ellagitannins ہوتے ہیں، جو معدے میں بیکٹریا urolithins میں بدل دیتے ہیں، یہ ورم کش خصوصیات رکھتا ہے جس سے قولون کینسر سے تحفظ ملتا ہے، اس کے علاوہ urolithins ورم کش ہونے کی وجہ سے دیگر اقسام کے کینسر سے تحفظ دے سکتا ہے۔ اس کی ہارمون جیسی خصوصیات جسم میں ہارمون ریسیپٹرز کو بلاک کرتی ہیں، جس سے بھی ہارم سے جڑے کینسر جیسے بریسٹ اور مثانے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان اثرات کی تصدیق ہوسکے۔ جسمانی وزن کو کم کرنے میں مددگار اخروٹ میں کیلوریز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے مگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان سے توانائی کے جذب ہونے کی شرح غذائی اجزا کے مقابلے میں 21 فیصد کم ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس گری کو کھانا، غذا کی اشتہا کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔موٹاپے کے شکار 10 افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن میں ایک بار اخروٹ سے بنے مشروب کا 5 دن تک استعمال کھانے کی اشتہا اور بھوک کو کم کرتا ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ اخروٹ کے بنے مشروب کے 5 دن استعمال کے بعد دماغی اسکین میں ان رضاکاروں کے دماغ میں ایسے خطے کی سرگرمیاں بڑھ گئیں جو نقصان دہ غذائیں جیسے کیک اور فرنچ فرائیز وغیرہ کی خواہش کو روکتا ہے۔
ذیابیطس ٹائپ ٹو سے تحفظ اور کنٹرول کرنے میں مدد کا امکان تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ اخروٹ کھانا جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے میں مدد دے کر ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ کم کرسکتا ہے، اضافی جسمانی وزن بلڈشوگر لیول اور ذیابیطس کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے، مگر جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے سے ہٹ کر بھی اخروٹ کھانے سے بلڈشوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے سو مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 3 ماہ تک روزانہ ایک کھانے کا چمچ اخروٹ کے تیل کا معمول کی ادویات اور متوازن غذا کے ساتھ استعمال خالی پیٹ بلڈ شوگر کی شرح میں 8 فیصد تک کمی لانے میں مدد دے سکتا ہے۔ بلڈ پریشر میں بھی کمی ہائی بلڈ پریشر فالج اور امراض قلب کا باعث بننے والے ایک بڑا عنصر ہے، کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق اخروٹ کھانے سے بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جن میں ہائی بلڈ پریشر کے مریض اور تناﺅ کے شکار صحت مند افراد بھی شامل ہیں، مگر کچھ تحقیقی رپورٹس میں یہ اثر دریافت نہیں ہوسکا۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گریاں جیسے اخروٹ کا استعمال بلڈ پریشر میں بہتری کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے، جو بہت اہم ہے کیونکہ بلڈپریشر میں معمولی فرق بھی امراض قلب پر اہم اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
